بابری مسجدشہادت کیس: مقدمے کی سماعت کر رہے اسپیشل جج کی مدت بڑھا دی گئی
نئی دہلی،13ستمبر(آئی این ایس انڈیا/ایس او نیوز ) اتر پردیش کی حکومت نے جمعہ کو سپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ ایودھیا میں دسمبر، 1992 میں متنازعہ بابری مسجد انہدام کیس میں بی جے پی کے سینئر لیڈروں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت کئی ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کر رہے اسپیشل جج کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔
جسٹس آر ایف نرمن اور جسٹس سورج کانت نے اتر پردیش حکومت کے چیف سکریٹری کی طرف سے کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کے بارے میں پیش حلف نامے اور آفس میمورنڈم کا جائزہ لیا۔اتر پردیش حکومت کی جانب سے سینئر وکیل ایشوریہ بھاٹی نے بنچ کو مطلع کیا کہ عدالت کو ہدایات کی پیروی کی جا چکی ہے اور خاص جج کی مدت ایودھیا انہدام کیس میں فیصلہ سنائے جانے کی مدت تک بڑھا دی گئی ہے۔
معاملے کا نمٹارا کرتے ہوئے بنچ نے کہاکہ ہم مطمئن ہے کہ ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ عدالت نے 23 اگست کو اتر پردیش حکومت سے کہا تھا کہ ایودھیا کیس کی سماعت کرنے والے خصوصی جج سریندر کمار یادوکی طرف سے کورٹ کو بھیجے گئے خط میں کی گئی درخواست پر غور کیا جائے ۔عدالت نے 19 جولائی کو خصوصی جج کی مدت اس مقدمے کی سماعت مکمل ہونے اور فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ تک بڑھا دی ہے۔عدالت نے کہا تھا کہ 30 ستمبر کو ریٹائرڈ ہونے والے خصوصی جج کی مدت صرف اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنے اور فیصلہ سنانے کے لیے ہی بڑھا ئی جا رہی ہے۔بنچ نے خصوصی جج سے کہا تھا کہ اس معاملے میں نو ماہ کے اندر اندر فیصلہ سنایا جائے۔اس معاملے میں اڈوانی، جوشی اور اوما بھارتی کے علاوہ بی جے پی کے سابق ایم پی ونے کٹیار اور سادھوی رتبھرا پر بھی مجرمانہ سازش کا الزام عدالت عظمی نے 19 اپریل، 2017 کو بحال کر دیا تھا۔اس معاملے میں تین اہم ملزم گری راج کشور، وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل اور وشنو ہری ڈالمیا کا انتقال ہو جانے کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا گیا تھا۔
عدالت عظمی نے خصوصی جج کو اس مقدمے کی روزانہ سماعت کرکے اسے دو سال کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی۔عدالت عظمی نے ان لیڈروں کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزام ختم کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے 12 فروری، 2001 کے فیصلے کو ناقص بتایا تھا۔