یومِ اساتذہ اور ہمارا معاشرہ ؛ (غوروفکر کے چند پہلو) از :ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی ،صدر شعبہ اردو؛ گورنمنٹ ڈگری کالج ، سونور ضلع ہاویری

Source: S.O. News Service | By Abu Aisha | Published on 7th September 2017, 1:56 PM | اسپیشل رپورٹس | ان خبروں کو پڑھنا مت بھولئے |

ہمارا معاشرہ سال کے جن ایام کو خصوصی اہمیت دیتاہے ، ان میں سےایک یومِ اساتذہ بھی ہے، جو 5ستمبر کو ہر سال پورے ملک میں منایاجاتاہے۔ اس موقع پر جلسے ، مذاکرے اور اس نوعیت کے مختلف رنگا رنگ پروگراموں کا انعقاد کرکے ایک قابل احترام اور مقدس پیشہ میں مصروف اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتاہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ یہ یادگار دن یعنی ٹیچرس ڈے ہندوستان کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے یوم ِ پیدا ئش پر منایا جاتاہے۔ آپ ایک استاذ کی حیثیت سے ترقی کرکے صدر جمہوریہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ خود کو استاد کہلانا پسند کرتے تھے۔ وہ نہایت منکسر المزاج تھے۔ ان کا لباس سفید کوٹ، پگڑی اور دھوتی ہوا کرتاتھا۔ وہ اپنے طلبا میں اتنے مقبول تھے کہ یونیورسٹی سے رخصت ہونے پر طلبا ایک گھوڑا گاڑی کو سجا کر لائے ، اس میں انہیں سوارکرکے گھوڑوں کے بجائے اپنے کاندھوں پر کھینچ کر اسٹیشن لئے گئے اور نمناک آنکھوں کے ساتھ عزت و احترام سے رخصت کیا۔

آج ہم یقیناً یوم ِ اساتذہ تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں، اساتذہ کی حالت ضرور بہتر ہوئی ہے، ان کی ہر طرح مادی ترقی بھی ہوئی ہے مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، اس کا دوسرا پہلو اتنا ہی دھندلا اور قابل ِ غور ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ استاد و شاگرد کا مستحکم رشتہ جو پہلے تھا وہ اب کافی کمزور ہوچکاہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب استاد کو شخصیت ساز اور معمارِ قوم تصور کیا جاتاتھا اور حاکم ِ وقت بھی اپنے استاد کے احترام میں سرجھکا دیتے تھے۔ سکندر ِ اعظم کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر کررہاتھا، راستے میں ایک دریا آیا تو دونوں میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے۔ سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی ناپنے کا اسے موقع دیا جائے ۔ ارسطو نے سکندر کو اس سے باز رکھتے ہوئے کہاکہ میں تمہار ا استاد ہوں ، تمہیں میری بات ماننی ہوگی۔ پانی میں پہلے میں اتروں گا۔ سکندر نے برجستہ جواب دیا کہ استاذ محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جاسکتی ہے۔ لہذا میں ہرگز یہ گوارہ نہیں کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق استاد سے محروم ہوجائے۔ کیوں کہ سیکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کرسکتے، جب کہ ایک ارسطو سیکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کرسکتاہے۔ سکندر کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ میرے والدین نےمجھے آسمان سے زمین پر اتارا جب کہ میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا۔

اساتذہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب نے اللہ کے حقوق کے ساتھ والدین اور استاد کے حقوق و احترام ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ایک بچہ کی تربیت میں جو حصہ ماں ادا کرتی ہے ، وہی بعد میں ایک استاد نبھاتاہے۔ استاد صرف نصاب تعلیم نہیں پڑھاتا وہ شخصیت سازی (Personality Development)کاکام بھی کرتاہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت (Training) بھی دیتاہے ۔ آج کا بچہ کل کا مثالی شہری (Ideal Citizen)بنے گا۔ اسے پہلا سبق اپنے اساتذہ سے ہی لینا پڑتاہےاور ان کی نگرانی میں ہی بچہ جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتاہے۔ اُسے اپنے اساتذہ سے صرف نصابی علم نہیں ملتا بلکہ اخلاق، تہذیب اور ثقافت کابھی درس ملتاہے۔ ٹیچر کے بغیر تعلیم کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ وہ زندگی کے تمام معاملات میں ایک گائیڈ کا کام کرتاہے، مارگ درشن دیتاہے ، اسی لئے کسی نے کہا ہے ؎

           پرمیشور سے گُرو پڑھا دیکھو وید پُران                        کہتے ہیں یہ شاہ ولیدا گرو کے گھر بھگوان

آج کا ہمارا تعلیمی نظام نظام چار عناصر پر قائم ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارہ میں ان چار عناصر کی بہتر ترتیب اور خوبصورت تال میل سے ہی اچھے اور خاطرخواہ نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ چار عناصر اساتذہ ، طلبا ، گارجین اور انتظامیہ ہوتے ہیں، یعنی ایک استاد کا اپنے شاگردوں ، ان کے سرپرستوں اور اراکین انتظامیہ تینوں سے تعلق اور عمدہ رابطہ رہنا چاہئے۔ خاص طورسے استاد اور شاگرد یا معلم اور متعلم یعنی ٹیچر اور اسٹوڈنٹ کے رشتے کی بنیادی اہمیت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ دورِ جدید میں اس پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ نظامِ تعلیم میں کسی اصلاح سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ استاد اور شاگرد کے رشتے میں آج بگاڑ کیوں پیدا ہواہے ، گرہیں کہاں پڑگئی ہیں؟ الجھاؤ کہاں ہے اور عقدہ کشائی کی صورت کیا ہے۔ ماضی میں یعنی قدیم تعلیمی نظام میں استاد و شاگرد کا رشتہ کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا۔ چاہے رشی منیوں کی پاٹھ شالائیں ہوں یا صوفی سنتوں کی خانقاہیں اور دینی درس گاہیں ہوں۔ ان کا روحانی و اخلاقی نظام ہی تعلیم و تدریس کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ تجربہ تو جدید تعلیمی اداروں میں نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ وقت اور حالات کے ساتھ اب ماحول میں بہت فرق آگیا ہے۔

جدید تعلیمی نظام اور نظرئیے پر غور وفکر سے قبل ان پر اثر انداز ہونے والے سیاسی ، سماجی اور معاشی محرکات پر بھی نگاہ ڈالنی ضروری ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں یورپ میں صنعتی انقلاب آیا اور ساری دنیا پر اثر اندااز ہوا۔ اس انقلاب کے نتیجہ میں مادیت اور لادینیت کا وہ سیلاب آیا کہ ہماری بہت سی اخلاقی و روحانی قدریں برباد ہوگئیں۔ قدیم تہذیبی بساط ہی الٹ گئی ۔ ظاہر ہے کہ ہمارا قدیم تعلیمی نظام بھی بدلا اور اسی کے ساتھ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی متاثر ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ جو محبت اور تعظیم کا رشتہ تھا ،جو خلوص اور تعلق خاطر پر مبنی تھا، وہ کاروباری سطح پر آگیا۔ جب ساراماحول مادیت سے متاثر ہوا تو متعلم بھی یعنی ایک طالب علم کی منطق یہ ہوئی کہ میں نے اسکول کالج میں داخلہ لیا ہے ، فیس اداکرتاہوں ۔ اس لئے مجھے حق ہے کہ میں کلاس روم میں بیٹھوں اور لکچر سنوں۔ میں کسی استاد کا رہین منت اور احسان مند نہیں ہوں اور دوسری طرف معلم یعنی استاد بھی اسی ماحول کی پیداوار ہیں۔ ہم سب علم محضاس لئے حاصل کرتے ہیں کہ کسبِ معاشکرسکیں۔ جس کی وجہ سے علم کے لئے جو ایک لگن اور پیاس ہونی چاہئے وہ باقی نہیں رہ پائی۔ نتیجہ میں اپنے مضمون پر کامل دسترس نہیں ہوتی اور ایسے میں استاد اپنے عیوب چھپانے کے لئے علم وفضلیت کے لبادے اوڑھے اپنے شاگردوں کو ایک فاصلے پر رکھتاہے۔ طلبا ء سوال پوچھتے ہیں تو وہ انہیں دباتاہے اور رعب جماتاہے۔ ایسی صورت میں تو شاگردوں کی زبانیں چپ ہوجاتی ہیں مگر ان کے چہرے صاف بول رہے ہوتے ہیں کہ یہ آپ کے لئے زیبا نہ تھا۔ پھر ان کے دل میں استاد کے لئے محبت و تعظیم باقی نہیں رہتی ۔ چنانچہ شاگرد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے فیس ادا کی ہے اور میں پڑھتا ہوں، استاد کا مرہون منت نہیں ہوں دوسری طرف استاد بھی پیشہ ور ہوگیا ہے ، وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اتنی تنخواہ کے عوض اتنے گھنٹے کام کرنا ہے اور اس مقررہ مدت کے بعد طلبا ء کا مجھ پر کوئی حق باقی نہیں رہتاہے ؎

           کچھ وہ کھینچے کھینچے رہے ، کچھ ہم تنے تنے                      اسی کشمکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا

چاہت اور اپنائیت کے اس اٹوٹ رشتے کو پھر سے قائم کرنے کی ضرورت ہے معلم انسانیت ، رحمت عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کااحترام نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔

طلبا کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ اساتذہ سے فیض حاصل کرتے ہیں ، اساتذہ ان کی ذہنی پرورش کرتے ہیں، وہ ان کے محسن ہیں اور شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے محسن کے سامنے انسان کی نگاہیں جھکتی رہیں۔ دوسری طرف استاد کا یہ سمجھنا کہ ان معین گھنٹوں کے بعد شاگرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ میرے دروازے پر دستک دے، صریحاً غیر اخلاقی ہے۔ شاگرد ان کی معنوی اولا دہیں۔ وہ اپنی طالب علمانہ زندگی ہی میں نہیں بلکہ عمر بھر یہ حق رکھتاہے کہ جب بھی اسے کوئی الجھن پیش آئے تو وہ استاد کے دروازے پر دستک دے اور اس کا مشورہ چاہے۔ ابتداء میں شفقت و تعظیم کی بات آئی تھی۔ استاد اور شاگرد کے رشتے کی یہ ایک بنیادی کڑی ہے۔ مگر یہ جاننا چاہئے کہ شفقت و تعظیم لازم وملزوم ہیں ۔ کبھی تعظیم سے شفقت پیدا ہوتی ہے اور کبھی تعظیم شفقت کو جنم دیتی ہے ۔ شفقت و محبت وہ چیز ہے کہ اس سے برف کے سلوں اور پتھر کی چٹانوں کو پگھلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ خلوص ومحبت ہمیشہ دلوں کو فتح کرتے ہیں اور جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح ِ زمانہ ۔ استاد وشاگرد کے رشتوں کی تمام پیچیدگیاں شفقت و تعظیم کے آزمودہ نسخے سے ہی دور ہوسکتی ہیں؎

                     اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد                        نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد

                                                                                           (بشکریہ :آل انڈیا ریڈیو دھارواڑ)

                                                                                                نشرشدہ :5ستمبر 2017ء

ایک نظر اس پر بھی

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

منیش سسودیا کی عدالتی تحویل میں 26 اپریل تک کی توسیع

دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کو شراب پالیسی کے مبینہ گھوٹالہ سے متعلق منی لانڈرنگ معاملہ میں عآپ کے لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی عدالت تحویل میں 26 اپریل تک توسیع کر دی۔ سسودیا کو عدالتی تحویل ختم ہونے پر راؤز ایوینیو کورٹ میں جج کاویری باویجا کے روبرو پیش کیا ...

بھٹکل، ہوناور، کمٹہ میں سنیچر کے دن بجلی منقطع رہے گی

ہیسکام کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ہوناور، مرڈیشور اور کمٹہ سب اسٹیشنس کے علاوہ مرڈیشور- ہوناور اور کمٹہ - سرسی 110 کے وی لائن میں میں مرمت ، دیکھ بھال،جمپس کو تبدیل کرنے کا کام رہنے کی وجہ سے مورخہ 20 اپریل بروز سنیچر صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے تک بھٹکل، ہوناور اور کمٹہ تعلقہ ...

لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری

الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات 2024 کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ کمیشن کے مطابق انتخابات کے چوتھے مرحلہ میں 10 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 96 پارلیمانی سیٹوں پر انتخابات ہوں گے۔ اس مرحلہ کی تمام 96 سیٹوں پر 13 مئی کو ووٹنگ ہوگی۔ نوٹیفکیشن جاری ...

بھٹکل میں کوآپریٹیو سوسائٹی سمیت دو مقامات پر چوری کی واردات

شہر کے رنگین کٹّے علاقے میں واقع ونائیک کو آپریٹیو سوسائٹی کے علاوہ دیہی پولیس تھانے کے حدود میں ایک دکان اور مرڈیشور بستی مکّی کے ایک سروس اسٹیشن میں سلسلہ وار چوری کی وارداتیں انجام دیتے ہوئے لاکھوں روپے نقدی لوٹی گئی ہے ۔

ہیمنت سورین کی ضمانت کی درخواست پر سماعت، ای ڈی نے جواب دینے کے لیے مانگا وقت

  زمین گھوٹالہ ومنی لانڈرنگ کے الزام میں جیل میں بند جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی ضمانت کی درخواست پر منگل کو پی ایم ایل اے کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی، مگر عدالت سے انہیں فوری راحت نہیں مل سکی۔ دراصل اس معاملے میں ای ڈی نے اپنا موقف اور جواب پیش کرنے کے لیے وقت ...