طلاق: مسلمانوں کا ایجنڈ ا کیا ہو؟ کنڑا ہفتہ وار’’ سنمارگہ‘‘ میں ایڈیٹر عبدالقادر کوکیلا کی تحریر

Source: S.O. News Service | By Abu Aisha | Published on 4th May 2017, 8:21 PM | ملکی خبریں | اسپیشل رپورٹس | مہمان اداریہ |

ملک بھر میں جاری طلاق کی بحث کا سدباب دوطریقوں سےکرسکتےہیں۔ پہلا یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت پر پورا الزام دھر کر خاموش ہوجائیں۔ دوسرا انہی موضوعات کو بنیاد مان کر مسلم ملت کی داخلی ترقی کے لئے حکمت عملی ترتیب دیں ۔ طلاق کے گرد گھومنے والی ٹی وی چینلس کی بحث میں ہوسکتاہے اشتعال انگیزی ہو اور اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں بھی مبالغہ آرائی ہو۔لیکن اس کامطلب ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح بالکل صفر ہے، ہے نا! تو پھر مسلمانوں کے موجودہ حالات کیسے ہیں؟

کیا وہ بہترہیں، بہترین ہیں، خراب ہیں یا بہت ہی سنگین ہیں؟ سچر اور رنگناتھ مشرا کمیشنوں نے مسلمانوں کے حالات کا مطالعہ کیا ہے، اتنا ہی نہیں،بلکہ کہا ہے کہ مسلمان بدترین حالات  میں زندگی گزاررہے ہیں۔ حالات جب ایسے ہیں تو بار بار ، ہرمرتبہ حکومتوں پر الزام عائد کرنے سے کیا مسلمانوں کی ترقی ممکن ہے ؟دراصل مسلمانوں کو غورکرنا ہے کہ وہ الزامات سے بالا تر ہوکر کس طرح اور کس طریقے سے متحر ک اور سرگرم ہوسکتےہیں ۔ مسلمانوں کے پاس دو بڑی نعمتیں ہیں۔ ایک مسجد ہے تو دوسری ملت ۔ سانحہ یہ ہے کہ دیگر طبقات کے ساتھ موازنہ کریں تو مسلمان ان دونوں قیمتی خزانوں سے استفادہ کرنے میں بار بار ناکام ہورہےہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس مساجد کی کمی ہو، ہاں ! جہاں تک مساجدسے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کا معاملہ ہے ہم اس معاملے میں بہت ہی کمزور ہیں۔ مسجد کی ایک انتظامیہ ہوتی ہے، صدر ہوتے ہیں، مجلس عاملہ بھی ہوتی ہے، امام وخطیب ہوتےہیں ، صرف اتنا ہی نہیں ، مسجد کے دائرۂ اختیار میں مسجد سےمنسلک کچھ مکانات بھی ہوتے ہیں، جہاں تک مساجد کوماہانہ اعانتیں نہیں دینے کی بات ہے وہ نہیں کے برابر ہونگے۔اتنے اچھے اور بہترین سسٹم سے مساجد کی تمام خدمت کو انجام دیتے ہوئے ملی ترقی کے لئے عملی منصوبہ تشکیل دینا ناممکن تو نہیں ہے۔ مسجد کو ماہانہ اعانت دینے والوں کی فہرست سے پتہ چل جاتاہے کہ مسجد کے احاطے میں کتنے گھر ہیں۔ اب مسجد انتظامیہ کو ایک بہت ہی چھوٹا سا کام کرنا ہے وہ یہ کہ فوری طورپرصرف ’’ملی ترقی ‘‘کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر ایک نشست منعقد کرکے مسجد کے نواح میں جتنی ملی تنظیمیں ، ادارے ، اسوسی ایشن ہیں ان سب کے عہدیداروں کو مدعو کریں،جہاں صرف ملی ترقی کی مختلف جہتوں پر گفتگو کرکے کچھ فیصلے لیں۔ میٹنگ کامیابی کی ضمانت یہ ہے کہ اپنے تمام اختلافات، اعتراضات کو دل کے وسیع قبرستان میں ایسا دفن کردیں کہ وہ دوبارہ زندہ نہ ہوں۔ اگر مسجد کے زیر اہتمام اتنا ہوجاتاہے تو پھر سمجھ لیجئے کہ جو لوگ طلاق کی بحث چھیڑ کر واویلا مچار ہے ہیں ہم اپنی عملی سرگرمیوں کے ذریعے جواب دینا شروع کرچکے ہیں۔

اگر کسی گھر سے مسجد کے لئے عطیہ یا اعانت دی جارہی ہے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ اس گھر اور مسجد کے درمیان ایک تعلق ہے ۔ہو سکتا ہے یہ تعلق بہت ہی کمزورہو، مگر ہے توصحیح۔ جب ایک مسجد اعانت تولیتی ہے لیکن بدلےمیں ایمانداری سے اس کی بہتری کے لئے کچھ بھی نہیں دیتی ۔ ذرا سوچیں!یہ تو ایک طرفہ خدمت ہوئی۔ آج تک بغیر کسی رکاوٹ کے یہ خدمت انجام دی جارہی ہے تو صرف اورصرف مساجد کے احترام کی وجہ سے ہی ۔ تو مساجد کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ایک طرفہ خدمت کو دوطرفہ بنائیں۔ اس کی عملی صورت یہی ہے کہ مسجد کی معاونت کرنے والوں (جو دینے کی بساط نہیں رکھتے انہیں بھی معاوین کی فہرست میں شمار کریں )کی بہتری کے لئے منصوبہ تشکیل دیں۔ مسجد کے دائرۂ اختیار میں آنے والے تمام گھروں کا سروے کریں، ایک گھرمیں بسنے والوں کی تعداد، گھر کی کیفیت، مرد، عورت، تعلیمی لیاقت، مزدوری ، بے روزگار،شادی شدہ ، غیر شادی شدہ، اپاہج، مریض، تعلیم حاصل کرنے والے۔۔۔۔جیسی مکمل تفصیلی جانکاری درج کرلیں۔ راشن کارڈ، شناختی کارڈ، آدھارکارڈ، صحت کارڈ، ٹائلیٹ، گھر کی کل آمدنی، بیوائیں، یتیم، مطلقہ اگرہوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب کچھ نوٹ کرلیں۔سچائی یہ ہے کہ موجودہ حالت میں کسی ایک طبقے کی ترقی کے نقطہ نظر سےاس طرح کا ایک تفصیلی سروے بہت ہی ضروری اور لازمی ہے۔ اس سروے کا سب سے بڑا اور بہتر فائدہ یہ ہوگا کہ جو بھی سرکاری سہولیات ہیں وہ مستحقین تک پہنچانا آسان ہوگا۔ اپنی مسجد سے جڑے ہوئے تمام گھروں تک سرکاری سہولیات کو بہم پہنچانے کے لئے جزو وقتی ہوکہ کل وقتی(Part time /Full time)ایک ملازم کا تقرر بہت بہتر قدم ہوگا۔ یا ایسا بھی ہوسکتاہے کہ خود مسجد کے امام ، خطیب یا کوئی اور ذمہ دار از خود اس خدمت کو انجام دیں۔البتہ جب کسی مسجد کے امام سرکاری سہولیات کو عوام تک پہنچانے کے لئے کسی سرکاری افسر یا رکن اسمبلی (ایم ایل اے ) ،عوامی نمائندے سے ملاقات کرتے ہیں تو وہاں ایک احترام کی کیفیت ہوتی ہےاور فوری طورپر اس کو منظوری ملنے کا امکان بھی ہوتاہے۔ اسی طرح مسجدسے منسلک علاقہ میں بیرونی ممالک میں برسرِ روزگارافراد سبھی ہوسکتےہیں،امام صاحب کے لئے انہیں اس ترقی کے ایجنڈے میں شامل کرناممکنات میں سے ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں زکوٰۃ کا ایک خصوصی نظام بھی ہے، اس کے ساتھ کئی این جی اؤز ہیں، عطیہ کنندگان ہیں، ان تمام سے ملی ترقی کے لئے تعاون لیاجاسکتاہے۔ اگر ہر مسجد کے دائرۂ اختیار، نواحی علاقوں کے مکانوں کا تفصیلی سروے انجام دے کر اس کی بنیاد پر ملی ترقی کے لئے بہتراور ضروری عملی منصوبہ تشکیل دیاجائے تو اس کوقابل ذکر کارنامہ کہہ سکتے ہیں اور ملت کی موجودہ صورت حال لازماً تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ،بلکہ طلاق، یکساں سول کوڈ، تعدد ازدواج ، دہشت گردی ۔۔۔۔وغیرہ کو انتخابی ایشوز بنانے والوں کو اپنا ایجنڈابدلنے کی اہم وجہ بھی ہوسکتی ہے۔

ترجمہ : عبدالرؤوف سونور، لکچرر، انجمن پی یو کالج ، بھٹکل          9448776206

ایک نظر اس پر بھی

کیجریوال کی بیماری کا مذاق اڑایا جا رہا، گہری سازش رچی جا رہی! سنجے سنگھ نے بی جے پی پر لگائے الزامات

دہلی شراب پالیسی معاملہ میں منی لانڈرنگ کے الزام میں جیل میں قید دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی صحت کو لے کر راجدھانی دہلی کے سیاسی حلقوں میں جمعرات سے ہی الزامات اور جوابی الزامات لگائے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ جمعہ کو بھی جاری رہا۔ جمعہ کو صبح عام آدمی پارٹی کے رکن ...

سپریم کورٹ نے رام دیو کی درخواست پر سماعت جولائی تک ملتوی کی

  سپریم کورٹ نے جمعہ کو یوگ گرو بابا رام دیو کی اس عرضی پر سماعت جولائی تک کے لیے ملتوی کر دی، جس میں انہوں نے اپنے مبینہ بیان پر کہ ایلوپیتھی کورونا کا علاج نہیں کر سکتی، مختلف ریاستوں میں اپنے خلاف درج ایف آئی آرز کو منسلک کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

48 مرتبہ گھر کا کھانا آیا، صرف 3مرتبہ آم بھیجا گیا، کیجریوال کی عرضی پر عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھا

  شراب پالیسی سے متعلق منی لانڈرنگ معاملہ میں جیل میں قید وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے جیل کے اندر انسولین دینے کے مطالبہ پر سپریم کورٹ کی جانب سے جمعہ کو سماعت کی گئی۔ عدالت نے کیجریوال کی عرضی پر فیصلہ پیر تک محفوظ رکھ لیا۔

پرچیوں پر نتن گڈکری کی تصویر، پولنگ بوتھ پر ہنگامہ، مہاراشٹر کی 5 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے، ابتدائی رپورٹ کے مطابق54فیصد پولنگ، مسلم علاقوں میں جوش وخروش

ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ مہاراشٹر میں بھی لوک سبھا الیکشن کے پہلے مرحلے کی پولنگ ہوئی۔  اس دوران ریاست کی ۵؍ سیٹوں پر ووٹ ڈالے گئے ۔ ناگپور، گڈچرولی ۔ چمور، گوندیا ۔ بھنڈارہ اور چندر پور۔ یہ تمام سیٹیں ودربھ کے خطے میں واقع ہیں۔ اطلاع کے مطابق شام ۵؍ بجے تک ریاست میں ۵۴؍ فیصد ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔