مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی،سدرشن ٹی وی کے پروگرام پر سپریم کورٹ کی روک،عدالت نے چینل کوملک کا ماحول خراب کرنے کا مرتکب قرار دیا
نئی دہل،16ستمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) سپریم کورٹ نے سدرشن چینل کے ”بنداس بول“نامی اس متنازعہ ٹی وی پروگرام پر منگل کے روز پابندی عائد کر دی ہے، جس میں انہوں نے نوکرشاہی جہاد کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان سیول سرویسز میں دراندازی کر کے ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سدرشن کے وکیل سے کہا کہ آپ کے مؤکل ملک کا نقصان کر رہے ہیں، نیز ایک ایسا نظام قائم کیا جانا چاہئے جس سے نفرت پھیلانے والے مباحثوں و پروگراموں پر روک لگائی جا سکے۔
واضح رہے کہ سدرشن چینل ٹی وی پروگرام کے اشتہار میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیول سرویسز میں مسلم طبقہ دراندازی کر رہا ہے۔ سدرشن کے اس ٹی وی پروگرام پر ہائی کورٹ کی طرف سے پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ سدرشن چینل کے مالک سریش چوہان نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کی بات کی تھی۔عدالت عظمیٰ نے پروگرام کے خلاف دائر ایک عرضی پر سماعت کے دوران کہا تھا کہ کچھ میڈیا ہاؤس کے پروگراموں میں ہونے والے مباحثے تشویش کا باعث ہیں، کیوں کہ اس میں ہر طرح کی منافرت بھری باتیں کی جاتی ہیں۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ، جسٹس اندو ملہوترا اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے کہا”اس معاملے میں بادی النظر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ اس پروگرام کا مقصد اور ارادہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلم برادری کی طرف سے یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ایک سازش کا حصہ ہے“۔
عدالت عظمیٰ نے کہا”پروگرام یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں نے سیول سروسز میں دراندازی کر لی ہے اور حقائق کے بغیر ہی یو پی ایس سی کے امتحانات کو شکوک و شبہات کے گھیرے میں لے آتا ہے۔وہیں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ سے کہا کہ صحافیوں کی آزادی بالاتر ہے اور پریس کو قابو میں کرنا کسی بھی جمہوری نظام کے لئے نقصاندہ ہے۔“ سدرشن ٹی وی کی طرف سے پیش ہونے والے اڈوکیٹ شیام دیوان نے بنچ سے کہا کہ چینل اسے قومی مفاد میں ایک کھوجی خبر مانتا ہے۔ اس پر بنچ نے کہا:آپ کا مؤکل ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور یہ اعتراف نہیں کرتا کہ ہندوستان کثیر جہتی ثقافت والا ملک ہے۔ آپ کے مؤکل کو اپنی آزادی کے حق کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ سدرشن ٹی وی کے متنازع پروگرام کو نشر نہیں کرنے پر ہائی کورٹ نے فیصلہ لینے کا اختیار مرکزی حکومت کو دیا تھا اور اس کے بعد مرکز نے اسے نشر کرنے کی اجازت فراہم کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس 49 سیکنڈ کا پرومو دیکھنے کے بعد ٹی وی شو پر پابندی عائد کرنے کا حکم سنا دیا اور چینل سے کہا کہ شو کی جو قسط منگل کے روز نشر کی جانے والی ہے اسے روک دیا جائے۔دورانِ سماعت جسٹس چند چوڑ نے سُدرشن ٹی وی کے وکیل شام دیوان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آپ کا فریق ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ملک کی کثرت میں وحدت والی تہذیب کو انکار کرتا ہے۔ آزادیئ صحافت کا مطلب مکمل آزادی نہیں ہے۔ججوں نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ وہ بھی اس پروگرام کو دیکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ کس طرح ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
سدرشن ٹی وی کے وکیل کے تمام دلائل کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ایک ٹی وی اینکر کا یہ دعویٰ کہ ایک مخصوص طبقہ یو پی ایس سی میں داخل ہونے کیلئے سازش کا طریقہ اپنا رہا ہے، اس سے زہریلی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس طرح کے الزامات سے نہ صرف ملک کااستحکام متاثر ہوتا ہے بلکہ امتحان کی معتبریت پر بھی سوال کھڑا کردیا ہے۔عدالت نے تبصرہ کیا ہے کہ بنیادی طور پر ایسا لگتا ہے کہ اس پروگرام کا مقصد ہی مسلم طبقے کو بدنام کرنا ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سازش کے تحت یہ لوگ ملک کے سیول سرویسز میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ اس پروگرام کے ذریعہ مسلمان یوپی ایس سی کے ذریعہ خدمات میں داخل ہونے کیلئے عمر کی بھی رعایت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جسٹس جوزف نے کیبل ٹی وی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی پروگرام نہیں دکھایا جاسکتا جو کسی فرقہ کو بدنام کرتا ہو۔اس پر تشار مہتا نے کہا کہ اس طرح کے پروگرام معمول بن چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس پروگرام کی اجازت دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے تشار مہتا نے کہا کہ اس سے پہلے ہندو دہشت گردی کے متعلق پروگرام بھی دکھائے جاچکے ہیں۔جسٹس چندر چوڑنے تشار مہتا سے سوال کیا کہ یو پی ایس سی امتحان کی معتبریت پر بغیر حقائق کے جس طرح کے سوالات اٹھائے گئے ہیں کیا انہیں برداشت کیا جاسکتا ہے۔ نیشنل براڈکاسٹنگ اتھارٹی کے وکیل کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے جسٹس چندر چوڑ نے سوال کیا کہ یہ ادارہ واقعی ہے یا صرف لیٹر ہیڈ پر موجود ہے۔جسٹس جوزف نے تبصرہ کیا کہ کوئی آزادی مکمل نہیں ہے اور اس میں آزادیئ صحافت بھی شامل ہے۔عدالت نے تبصرہ کیا کہ صحافی جب بھی کام کرتے ہیں تو انہیں غیر جانبداری سے کام لینا چاہئے۔ لیکن بد قسمتی سے میڈیا تحقیق کے صرف ایک پہلو پر توجہ دے رہا ہے۔ ججوں نے اشارہ دیا کہ 5ممتاز شہریوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو الیٹرانک میڈیا کیلئے معیارات طے کرے گی۔ ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں کے گرتے ہوئے معیار پر تبصرہ کرتے ہوئے جسٹس جوزف نے کہا کہ کئی بار اینکروں کی طرف سے بحث میں شامل ہونے والے افراد کو بولنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا۔عدالت نے مزید تبصرہ کیا کہ صرف اس لئے کہ انٹر نیٹ قانون کی دسترس سے باہر ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر کنٹرول کئے بغیر اسے چھوڑ ا نہیں جاسکتا۔