سپریم کورٹ کا بلڈوزر کارروائی پر سخت مؤقف: آخری آپشن کے طور پر استعمال ہو
نئی دہلی ، یکم اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی)سپریم کورٹ نے بلڈوزر ایکشن کیس کی سماعت کے دوران عوامی مفاد کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی مذہبی ڈھانچہ عوام کی زندگی میں رکاوٹ بن رہا ہو، اسے ہٹانا ضروری ہے۔ جسٹس گوائی نے واضح کیا کہ ’ہم ایک سیکولر ملک میں رہتے ہیں، اس لیے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں۔‘
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تیشار مہتا نے یوپی حکومت کی نمائندگی کی اور کہا کہ نوٹس بھیجنے کے لیے ریکارڈڈ ڈاک کا استعمال ہونا چاہیے تاکہ متاثرہ افراد کو اپنی حیثیت کا علم ہو۔ تاہم، جسٹس گوائی نے کہا کہ اگر نوٹس فرضی ہو سکتے ہیں تو گواہوں کی موجودگی بھی مشکوک ہو سکتی ہے۔
جب ایک غیر قانونی تعمیر کے حوالے سے کارروائی کی بات کی گئی تو مہتا نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کسی بھی جگہ کے رہائشی خاندانوں کو متبادل انتظامات کے لیے وقت دینا چاہیے، خاص طور پر جب گھر میں بچے یا بوڑھے موجود ہوں۔
اس پر ججوں نے اصرار کیا کہ کسی بھی اقدام سے پہلے متاثرہ لوگوں کو مناسب وقت دینا چاہیے۔ ججوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عوامی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بنے غیر قانونی ڈھانچے کو کوئی تحفظ نہیں دیا جائے گا۔ تاہم جسٹس وشوناتھن نے کہا، ’’اگر دو ڈھانچے غیر قانونی ہیں اور آپ کسی جرم کو بنیاد بنا کر ان میں سے صرف ایک کو گراتے ہیں تو سوال تو اٹھیں گے ہی۔‘‘
یاد رہے کہ عدالت نے اس بات پر بھی توجہ دی کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کاروائیاں ان کی نوعیت کے لحاظ سے ہونی چاہئیں اور اگر کسی جگہ پر کوئی غیر قانونی ڈھانچہ پایا جائے تو وہیں کارروائی کی جائے۔ ججوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی بھی غیر قانونی ڈھانچے کو منہدم کرنے کا عمل تب کیا جانا چاہیے جب تمام دوسرے متبادل اقدامات ختم ہو چکے ہوں۔
سماعت کے دوران، درخواست گزار کے وکیل نے کئی ایسے واقعات کا حوالہ دیا جہاں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف فوری کارروائیاں کی گئی ہیں، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی روک تھام کے باوجود بھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل غیر قانونی اور منصفانہ نہیں ہے اور اس طرح کے اقدامات کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔
سماعت کے دوران عرضی گزار کے وکیل نے کہا، ’’ہم صرف میونسپل قوانین کی تعمیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں گنیش پنڈال میں پتھراؤ کا واقعہ پیش آیا۔ بلڈوزر فوری طور پر علاقے میں پہنچ گئے۔ یہ سب بند ہونا چاہیے۔ یوپی میں جاوید محمد کا گھر ان کی بیوی کے نام تھا۔ جاوید پر ہجومی تشدد کا الزام تھا۔ پورا 2 منزلہ مکان منہدم کر دیا گیا۔ یہ اتنا عام ہو گیا ہے کہ یہ باتیں کہہ کر الیکشن بھی لڑے جاتے ہیں۔‘‘
دلائل سننے کے بعد جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ انہدام کی کارروائی صرف اس وقت کی جانی چاہئے جب یہ آخری آپشن ہو۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ایسی کارروائیاں نہیں کریں گے جو غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کے لیے فائدہ مند ہوں اور ان تمام معاملات میں قانون کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔