بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ، روک برقرار
نئی دہلی، 2/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر کی غیر قانونی کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں منگل کو ایک مرتبہ پھر سماعت ہوئی۔ جمعیۃ علماء ہند کے دونوں دھڑوں سمیت دیگر درخواست گزاروں نے یہ معاملہ اٹھایا۔ جسٹس بی آر گووئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن کی بنچ نے ان درخواستوں پر تفصیلی بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اور بغیر پیشگی اجازت کے بلڈوزر کارروائی پر پابندی کو برقرار رکھا۔
عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ انہدامی کارروائی محض اس بنیاد پر نہیں ہوسکتی کہ کوئی شخص ملزم ہے۔اگر کوئی قصوروا ر ہے تب بھی گھر پر بلڈوزر نہیں چلایا جاسکتا ۔بنچ نےکہا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہےاور ہمارے فیصلہ کا اطلاق ملک کے سبھی لوگوں پرہوگا۔ ہم کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔ بنچ نے کہا کہ وہ اس معاملے میں ہونے والی غیرقانونی حرکتوں کو روکنے کے لئے ملک گیر رہنما خطوط جاری کرےگی جس کامذہبی امتیاز کے بغیر یکساں طور پرسبھی پر اطلاق ہوگا۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ غیر قانونی تعمیرات اور عوامی مقامات پر قبضے کا اس گائیڈ لائن کے ذریعے تحفظ نہ ہو ۔ عدالت نے مزید کہاکہ وہ آئین کے آرٹیکل۱۴۲؍ کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے پورے ملک کیلئے ہدایت جاری کرے گی۔ اس کے بعد بنچ نے فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ججوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی غیر قانونی ڈھانچے کو منہدم کرنے کا عمل تب کیا جانا چا ہئے جب تمام دوسرے متبادل اقدامات ختم ہو چکے ہوں۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے کئی ایسے واقعات کا حوالہ دیا جہاں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف فوری کارروائیاں کی گئی ہیں یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی روک کے باوجود یہ کارروائی کی گئی۔ عدالت میں مثال دی گئی کہ یوپی میں جاوید محمد کا گھر ان کی بیوی کے نام تھا جبکہ جاوید پر ہجومی تشدد کا الزام تھامگر ان کا پورا دو منزلہ مکان منہدم کر دیا گیا۔’ بلڈوزر انصاف‘ اتنا عام ہو گیا ہے کہ یہ باتیں انتخابی مہم میں استعمال کی جاتی ہیں۔دلائل سننے کے بعد جسٹس وشوناتھن نے کہا کہ انہدام صرف اس وقت ہونا چاہئے جب یہ آخری آپشن ہو۔
جمعیۃ علماء ہند( ارشد مدنی)طرف سے سینئر ایڈوکیٹ ابھیشک منو سنگھوی نے عدالت عظمیٰ سے جلد رہنما خطوط مرتب کرنے پر زور دیتے ہوئے عدالتی حکم کے باوجود آسام اور گجرات میں بلڈوزر انہدامی کارروائی پر بنچ کی توجہ دلائی۔انہوں کہا کہ ماضی میں جوکچھ پیش آیاوہ قابل مذمت ہے،تاہم حال اور مستقبل میںاس کی جازت نہیں دی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کے نام پر سیاستداں ووٹ مانگ رہے ہیں۔سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے بھی رہنما ہدایات میں اس بات کو شامل کرنے پر زور دیا کہ انہدامی کاروائی سے قبل نوٹس جاری کیا جائے اورنوٹس پرفیصلہ ہونے کے بعد اپیل کرنے کا حق بھی ہونا چاہئے۔
جمعیۃ علماء ہند ( محمود مدنی)کی طرف سے سینئر وکیل ایم آر شمشاد اور دیگر وکلاء پیش ہوئے۔ان وکلاء نے بھی گجرات اور آسام میں بلڈوزر کارروائی کی شکایت کی۔عدالت نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ان انفرادی معاملوں پر بھی غور کرے گی۔جمعیۃ کے وکلاء کے ذریعہ پیش کردہ گائیڈ لائن پربھی عدالت نے غور کیا۔ اس میں انہدام سے۶۰؍ روز قبل مقامی زبان میں نوٹس جاری کرنے ،وجوہات کی نشاندہی کے ساتھ متاثرہ کو۱۵؍ روز میںاپیل کا حق دینے اور اس پر فیصلہ آنے تک انہدامی کارروائی نہ کرنے کی تجویز دی گئی۔
سپریم کورٹ کے سخت رویے کی وجہ سے اس کیس میںمرکزی حکومت اوردیگر ریاستوں کی نمائندگی کررہےسالیسٹر جنرل تشارمہتا کو رہنما خطوط پر آمادگی ظاہر کرنی پڑی۔ انہوں نے بنچ سے درخواست کی کہ اس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بلڈوزر اور دیگر مافیا فائدہ نہ اٹھا سکیںاور نہ ہی مختلف ریاستوں میں پہلے سے موجود میونسپل قوانین سےیہ متصادم ہو۔ اس دوران سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے، جہانگیر پوری کے ایک عرضی گزار گنیش گپتا کی طرف سے پیش ہوئےجس کی جوس کی دکان کو منہدم کر دیا گیاتھا۔انہوں نے بھی ملک گیر رہنما خطوط جاری کرنے کی حمایت کی ۔