ایودھیا معاملہ: نظر ثانی کی سبھی18درخواستیں خارج افسوس ناک فیصلہ،ایک اختیار اب بھی باقی،فیصلہ آئندہ:مسلم فریق
نئی دہلی،14/دسمبر(ایس او نیوز/ایجنسی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اے ایس بوبڈے کی سربراہی والی بنچ نے مختصر سماعت کے بعدبابری مسجد پرآئے فیصلہ کے خلاف داخل نظر ثانی کی 18عرضیوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ ان میں میرٹ کی عدم موجودگی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں انصاف کی جو مدھم سی لونظرآرہی تھی وہ بھی خاموش ہوگئی۔لیکن ہندوستانی آئین کے مطابق ایک اختیار اور شہری کو حاصل ہے، وہ ہے کیوریٹوپٹیشن۔کیا اس کا استعمال بابری مسجد فریقین کریں گے؟اس پر ابھی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔لیکن اس سے قبل انہیں یہ بھی سوچناہوگا کہ برادران وطن کو دعوت دین کی طرف بلانے کے راستے کہیں محدود تو نہیں ہورہے ہیں؟کیوں کہ 100کروڑ لوگ غیر اللہ کی پرستش کررہے ہیں،ان کے دلوں میں کیسے اللہ کی محبت ڈالیں گے؟واضح رہے کہ9 نومبر کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے ایودھیا معاملہ میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پوری متنازعہ زمین غیر مسلم فریق کو دینے کا حکم دیا تھا اور مسلم فریق یعنی سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں 5 ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلہ سے ناخوش افراد نے نظر ثانی کی 18 عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل کی تھیں۔چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت میں 5رکنی آئینی بنچ نے چیف جسٹس کے چیمبر میں ان عرضیوں کی سماعت شروع کی۔ اس بنچ میں سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کی جگہ جسٹس سنجیو کھنہ کو شامل کیا گیا تھا۔ اس طرح سے نئی5 رکنی بنچ میں چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بوبڈے، جسٹس چندرچوڑ،جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس عبدالنظیر اور جسٹس سنجیو کھنہ رہے۔عدالت کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے شیڈیول کے مطابق عدالت کو نظر ثانی کی کل 18 عرضیاں موصول ہوئی تھیں۔ ان 18 میں سے 9 عرضیاں تو معاملہ کے فریقین کی جانب سے تھیں جبکہ دیگر 9 عرضیاں تیسرے فریق کی حیثیت سے داخل کی گئی تھیں۔ اس معاملہ میں سب سے پہلی عرضی 2 دسمبر کو ایم صدیق کے قانونی وارث مولانا سید اشہد رشیدی نے دائر کی تھی۔ اس کے بعد 6 دسمبر کو مولانا مفتی حزب اللہ، محمد عمر، مولانا محفوظ الرحمن، حاجی مصباح الدین نے داخل کی تھیں۔ان تمام عرضیوں کو کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے بعد 9 دسمبر کو دو عرضیاں مزید داخل ہوئیں جن میں ایک کل ہند ہندو مہا سبھا جبکہ دوسری عرضی 40 دانشور حضرات کے ایک گروپ کی جانب سے داخل کی گئی۔ اس گروپ میں مؤرخ عرفان حبیب اور ہرش مندر جیسے لوگ شامل تھے۔واضح رہے کہ جہاں مسلم فریقین کی جانب سے داخل کی گئی عرضیوں میں عدالت کے فیصلے میں موجود تضادات کے تعلق سے عرضی داخل کی گئی تھی وہیں ہندو مہا سبھا نے عدالت کے اس حکم کو چیلنج کیا تھا جس میں مسلم فریق کو 5ایکڑزمین دینے کے لئے کہا گیا تھا۔بہر حال، سپریم کورٹ نے سبھی نظرثانی عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے ظاہر کر دیا ہے کہ بابری مسجد اور رام مندر کے تعلق سے جو فیصلہ 9 نومبر کو ہوا، اس پر اب کوئی غور نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ مسلم فریق کو جو 5 ایکڑ زمین سپریم کورٹ نے دیے جانے کی بات کہی ہے، وہ کس جگہ پر دی جائے گی۔مسلم پرسنل لا بورڈکے سکریٹری اورسنیئر وکیل ظفریاب جیلانی نے اسے بدقسمتی سے تعبیر کیا ہے۔جیلانی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہماری نظرثانی کی درخواست پر غور نہیں کیا، یہ بدقسمتی ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا اگلا قدم کیا ہوگا؟ ہم اس سلسلے میں اپنے سینئرایڈوکیٹ راجیو دھون سے مشورہ کریں گے۔ اسی دوران، بابری مسجد کے ایک وکیل اقبال انصاری نے درخواست خارج ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اسی دوران،جمعیۃ علماء ہند کے ایک گروپ کے سربراہ مولاارشدمدنی عدالت کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔درخواست منسوخ ہونے کے بعد، انہوں نے کہا کہ وہ اس سے افسردہ ہیں۔ مدنی نے کہا کہ عدالت کا موقف ہے کہ بابری مسجد کو مسمار کیا گیا تھا اور اس کو گرانے والے قصوروار ہیں لیکن عدالت نے بھی فیصلہ ان کے حق میں دیا۔