کرناٹک حجاب معاملہ : طالبات کے وکلاء نے کھڑے کئے کئی سوال ؛ 10 دنوں کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ رکھا محفوظ
نئی دہلی،22؍ستمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی اور بعد میں کرناٹک ہائی کورٹ میں بھی حجاب کے خلاف فیصلہ سنائے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں آج دسویں دن بھی سماعت ہوئی، جس کے دوران طالبات کے وُکلاء نے کرناٹک حکومت کی طرف سے پیش کردہ دلائل پر کئی اہم سوالات اُٹھائے اور کہا کہ حکومت کرناٹک کے پاس ہمارے سوالوں کے جواب ہی نہیں ہیں۔ اسی کے ساتھ آج جمعرات کو عدالت میں سماعت کی کاروائی مکمل ہوئی اور سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔
آج جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ کے سامنے مسلم طالبات کی طرف سے پیش وکیل دُشینت دَوے نے پی ایف آئی کا ایشو اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’’سرکاری سرکلر میں کہیں بھی پی ایف آئی کا ذکر نہیں تھا، لیکن سالیسٹر جنرل نے اس کا تذکرہ کیا اور اگلے دن میڈیا کی سرخی بن گئی۔‘‘ دراصل گزشتہ روز سماعت کے دوران کرناٹک حکومت کی طرف سے پیش سالیسٹر جنرل نے کہا تھا کہ پی ایف آئی کے ذریعہ اکسائے جانے کے بعد مسلم طالبات نے حجاب پہن کر کلاس آنا شروع کیا۔
دُشینت دَوے کی بات سن کر جسٹس گپتا نے پوچھا کہ ’’آپ کا کیا اسٹینڈ ہے، 22-2021 سے پہلے کوئی وردی نہیں تھی؟‘‘ اس پر دَوے نے جواب دیا کہ ’’ہماری دلیل یہ ہے کہ حجاب پر کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ یہ اپنی مرضی کے مطابق کی جانے والی رسم ہے۔ پہلے یونیفارم اس طرح لازم نہیں تھی جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔ اس طرح حجاب پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔‘‘
طالبات کی طرف سے پیش ایک دیگر وکیل احمدی نے بھی کرناٹک حکومت کی طرف سے پیش کردہ دلائل میں خامیاں بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اپنی دلیلوں میں یہ نہیں بتا پائی کہ مسلم لڑکیوں کے ذریعہ حجاب پہننے سے کس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی؟ پبلک آرڈر اور لاءاینڈ آرڈر پر کیسے اثر ہوا؟ جب کسی لڑکی نے حجاب پہنا تو کوئی دوسرا کیوں مشتعل ہوا؟ یہ مشورہ کہ یہ عوامی نظام کا ایشو بچکانہ ہے، یہ پریشر گروپس کے آگے جھکنے اور دھمکانے کے برابر ہے۔ یہ بہتر نظامِ حکمرانی کا اشارہ نہیں ہے۔ لہٰذا یہ سرکاری حکم ناجائز ہے۔
احمدی کے بعد سینئر وکیل سلمان خورشید نے بھی کچھ دلائل پیش کیے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے گائے کی قربانی، طلاق ثلاثہ، رام مندر پر فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے دلیلیں دی گئی ہیں، جب کہ قرآن میں ان کا ذکر ہی نہیں ہوا ہے۔ سلمان خورشید نے یہ بھی کہا کہ ’’طلاق ثلاثہ کے فیصلے کی دلیل دی گئی، لیکن جسٹس کورین جوسف کا فیصلہ ہے کہ قرآن میں کہیں طلاق ثلاثہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’یہاں ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی تذکرہ کرنا ہوگا جہاں ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کی لازمی رسم کا ایشو تھا، لیکن سپریم کورٹ نے کہا کہ مسجد میں نماز لازمی عمل نہیں ہے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ آپ کو نماز مسجد میں ہی پڑھنی چاہیے۔‘‘
سلمان خورشید نے کہا کہ حکومت کی طرف سے عدالت میں حجاب پر پابندی کو لے کر فرانس اور ترکی کا حوالہ دیا گیا، جب کہ فرانس میں تو آپ کراس بھی نہیں دکھا سکتے۔ ایسا اس لیے کہ وہاں مذہبی اقدار کو ظاہر کرنے والی کوئی بھی چیز دکھائی نہیں جا سکتی۔ انھوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ کو مذہب کو بغیر رکاوٹ ماننے کی آزادی کے آرٹیکل 25 کے تحت حقوق کو متوازن کرنے کے لیے ضروری مذہبی رسوم کو پرکھنے کا حق ہے۔ حالانکہ حجاب آرٹیکل 51اے کا ایشو ہے، اور ہم بتا چکے ہیں کہ آرٹیکل 51اے کے تحت مشترکہ ثقافت اپنانے کا نظام ہے، پھر بھی تنوع کا احترام نہیں کیا جا رہا ہے۔‘‘
آج جب بحث ختم ہوئی تو معروف وکیل سنجے ہیگڑے نے داغ دہلوی کا یہ مشہور شعر پڑھا ’’ہمیں ہے شوق کہ بے پردہ تم کو دیکھیں گے/ تمھیں ہے شرم تو آنکھوں پہ ہاتھ دھر لینا۔‘‘ بہرحال، سپریم کورٹ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی سے متعلق فیصلہ بھلے ہی محفوظ رکھ لیا ہے، لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ اگر اب بھی کوئی تحریری شکل میں دلیلیں پیش کرنا چاہتا ہے، تو دے سکتا ہے۔