معزول سوڈانی صدرعمرالبشیر سے 1989 میں فوجی بغاوت پر تفتیش
خرطوم / 11 دسمبر (آئی این ایس انڈیا)سوڈان کے معزول صدر عمرحسن البشیر منگل کے روز پراسیکیوٹرز کی ایک کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے ہیں جہاں ان سے 1989ء میں منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت برپا کرنے کے بارے میں پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ وہ اس بغاوت کے نتیجے میں برسراقتدارآئے تھے۔ان کے وکیل محمد الحسن نے بتایا ہے کہ عمرالبشیر کو 1989 کی فوجی بغاوت کی تحقیقات کے لیے لایا گیا تھا، لیکن انھوں نے سماعت میں حصہ نہیں لیا ہے۔وکیل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی نظر میں یہ معاملہ عدالتی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔عمر البشیر اس فوجی بغاوت کے وقت بریگیڈئیر تھے اور انھوں نے اسلامی جماعتوں کی حمایت سے ایک منتخب حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور منتخب وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔لیکن وہ تیس سال کی مطلق العنان حکمرانی کے بعد بھی اپنا اقتدار نہیں بچاسکے اور خود بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئے ہیں۔ عوام نے ان کے خلاف بغاوت برپا کردی تھی اور فوج نے 11اپریل کو ان کے اقتدار کا دھڑن تختہ کردیا تھا۔اب وہ پس دیوار زنداں ہیں اور ان کے خلاف مختلف الزامات میں مقدمات چلائے جارہے ہیں۔12 نومبر کو سوڈانی حکام نے عمرالبشیر اور ان کے بعض معاونین کے خلاف 1989میں فوجی بغاوت برپا کرنے پر فردِ الزام عائد کی تھی۔استغاثہ نے ان سے تحقیقات کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے۔اگر وہ اس کیس میں قصور وار پاتے ہیں تو انھیں سوڈانی قانون کے تحت سزائے موت یا عمر قید کا سامنا ہوسکتا ہے۔عمرالبشیر کو خرطوم کی الکوبر جیل سے سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی معیت میں پراسکیوٹر کے دفتر میں لایا گیا تھا۔انھیں کوئی ایک گھنٹے کی سماعت کے بعد جب واپس جیل لے جانے لگے تو وہاں ایک ہجوم جمع ہوگیا اور انھوں نے معزول صدر کے حق میں نعرے بازی شروع کردی۔عمر البشیر روایتی سفید سوڈانی لباس جلابیہ میں ملبوس تھے۔انھوں نے لوگوں کو دیکھ کر ہاتھ بلند کیے اور پھر انھیں قافلے کی شکل میں الکوبر جیل لے جایا گیا۔