پھربھی یومِ آزادی مبارک! تحریر:محمدشارب ضیاء رحمانی

Source: S.O. News Service | By Safwan Motiya | Published on 14th August 2016, 7:47 PM | آپ کی آواز |

مسرت کے لمحات، احتساب کی دعوت دیتے ہیں۔خوشی کے جشن میں ایامِ رفتہ کے غموں کی کسک تیز محسوس ہوتی ہے۔آج ہم ایک پھریومِ آزادی کی مسرتوں میں ڈوبے ہیں ۔لیکن اس موقعہ پرگذشتہ ایک برس کے غیرجمہوری حادثوں،غیرسماجی وانسانی واقعات اورملک کی اعلیٰ قدروں کوٹھیس پہونچانے والے انسانیت سوزمظالم بھی ہمارے سامنے ہیں۔جشنِ آزادی کی اسی دھوم دھام کے بیچ لہولہان جنتِ ارضی کشمیربھی نگاہوں میں ہے۔ کوئی گلدستہ وطن کے پھولوں کوایک دوسرے سے جداکرنے اور رنگارنگی کوصرف ایک بھگوارنگ میں رنگنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ان حالات میں جہاں یہ مرحلہ خوشی کاہے وہیں اس کسک اوردردکومحسوس کرنے کابھی ہے۔آزادی کی بات کی جاتی ہے تو ایک ایسے ملک کاتصورسامنے آتاہے جہاں ہرایک شہری کو رنگ ونسل اورمذہب وقبیلہ کے امتیازکے بغیرکھلی فضا میں سانس لے کر اپنے شہری حقوق اورمراعات سے مستفیدہونے کے پورے مواقع حاصل ہوں،محبت کی خوشگوارفضاسے ہرہندوستانی سرشارہو،اسے یہ احساس ہرگزنہ ہوکہ کوئی غیراخلاقی یاغیرجمہوری پابندی اس پرعائدہے،یامذہب اوررنگ ونسل کی بنیادپراس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک ہورہاہے۔جمہوریت میں امتحان اکثریت کاہوتاہے اورسیکولرزم کے تحفظ کی ذمہ داری اکثریتی طبقہ پرزیادہ ہوتی ہے۔ہماراملک سیکولربھی ہے اورجمہوری بھی یعنی اس ملک کانہ کوئی مذہب ہوگااورنہ مذہب کی بنیادپرکسی طرح کی کوئی تفریق کی جائے گی،ہاں ہرمذہب کااحترام لازمی ہوگا،ساتھ ہی جمہوری ملک ہونے کامطلب یہ ہے کہ تاناشاہی کاکوئی امکان باقی نہ رہے،اورملک کی اکثریت جسے منتخب کرے،اقتداراس کے ہاتھوں میں ہواورملک کی اکثریت جسے مستردکرے،وہ اقتدارسے دوررہے۔ بزرگوں نے جس آزادہندوستان کاخواب سجایاتھاوہ ایساہی ہندوستان تھا۔لیکن رفتہ رفتہ اس احساس کوتقویت مل رہی ہے کہ جمہوریت اورسیکولرزم کے اقدارسے وطن عزیزدورہوتاجارہاہے۔جمہوری ملک میں اگرکوئی جماعت اکثریتی رائے پر منتخب نہیں ہوتی ہو بلکہ زمامِ اقتداراس جماعت کے ہاتھوں میں چلاجائے جسے ملک کی اکثریت نے مستردکیاہے توپھرجمہوریت کاکیامعنیٰ رہ جاتاہے۔
جمہوری ہندوستان کی اہم روح اس کاسیکولرزم ہے،آئین نے حکومت کو اس کاپابندبنایاہے کہ و ہ سیکولراقدارکی پاسداری کرے۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہی اس کی یہ روح مجروح ہوگئی ہے ۔اگرمذہب کی بنیادپرجرائم کی سزاطے کی جاتی ہو،میڈیاجسے جمہوریت کاچوتھاستون کہاجاتاہے ،وہ حکومتی اشاروں کے انتظارمیں ہوتوپھرآزادی کس بات کی ہے؟۔بعض چینلوں کوکھولنے کے ساتھ ہی صاف محسوس ہوتاہے کہ انہیں ملک میں آگ لگانے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔جانورکی حفاظت کے نام پرانسانوں کاقتل،استحصال اوران پرمظالم کے لامتناہی سلسلہ کے تناظرمیں وطن عزیزکی روایت متاثر ہوئی ہے۔چنانچہ ہرانصاف پسندیہ محسوس کرنے پرمجبورہے کہ ملک کاجمہوری ڈھانچہ غیرمحفوظ ہاتھوں میں ہے ۔یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ آرایس ایس سربراہ نے کہاتھاکہ ملک میں پہلی مرتبہ ہندوحکومت آئی ہے۔بھاگوت کایہ جملہ ملک کی ایک اورغلامی کی دستک دے رہاہے۔ویسے توسنگھ پریوارکانہ توہندوستانی پرچم میں کوئی یقین ہے نہ آئین ہندمیں ۔اب موجودہ حالات میں ملک کایہ احساس مضبوط ہورہاہے کہ وزیراعظم مودی پھرراج دھرم نہیں نبھارہے ہیں لیکن انہیں راج دھرم کی نصیحت کرنے والابھی بسترپرہے۔آخریہ کیسی آزادی ہے کہ ان کی پارٹی کے لیڈران اب یہ بھی طے کرنے لگے ہیں کہ کس کوکیاکھاناچاہئے اورکس کوکتنے بچے پیداکرنے چاہئیں۔اسی طرح مختلف پالیسیوں کے ذریعہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کونشانہ بنایاجارہاہے۔
وزیراعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے اپنی پہلی تقریرمیں کہاتھاکہ دس سالوں تک بھیدبھاؤ،فرقہ وارانہ ٹکراؤ،سمپردایکتاجیسی چیزوں کوچھوڑدیں اورملک کی ترقی میں سب مل کرلگ جائیں، سمپردایکتاکے زہرسے ،ایک دوسرے کومارنے سے کس کوکیاملا،ہم نے بہت لڑلیا،ان بیتی باتوں کوپیچھے چھوڑدیں، بھائی چارہ ،شانتی اورایکتاکاراستہ اپنائیں،میرے الفاظ پربھروسہ کریں ۔ لیکن اب ایک سال کے بعدملک ان سے سوال کررہاہے کہ جب ان کے ’’پریوار‘‘کے لوگوں نے پورے ملک کوآگ کے ڈھیر پرلاکھڑاکردیاہے تو’’سب سے مضبوط وزیراعظم‘‘ کیاکررہے ہیں، کیایہ سب ان کی منظوری کے بغیرہونے لگاہے۔انہوں نے ترنگے کے نیچے کھڑے ہونے کی دہائی دیتے ہوئے ان باتوں کوعملی جامہ پہنانے کاوعدہ کیاتھالیکن اب ڈھائی سال بعدانہیں اس طرح کی بات کرنے کاکوئی اخلاقی حق نہیں ہے ۔مغربی اوریوروپی ممالک کے ہردورہ سے قبل ان کایہ بیان آجاتاہے کہ ملک میں ہرطبقہ کااحترام کیاجائے گا۔’ایکتا‘کی باتیں بیرون ملک دورہ سے قبل ہوجاتی ہیں۔وجہ صاف ہے کہ غیرملکی میڈیاکاڈرسمایارہتاہے ۔لیکن عرض اتناکرناہے کہ مذہبی رواداری اورایکتاجیسی باتیں اب وزیراعظم سے سننے میں اچھی نہیں لگتی ہیں۔
وزیراعظم نے گذشتہ برس لال قلعہ کے خطاب میں دن کی تیزروشنی بلکہ تیزدھوپ میں خواب دکھائے تھے ، انہوں نے ملک کے کسانوں اورپسماندہ طبقوں کی بات کوساتھ لے کرچلنے کی بات کی تھی،یہ بھی دلچسپ ہے کہ دنوں سال کی تقریرکی اسکرپٹ ایک ہی تھی۔دیکھناہے کہ اس بارکون سے ’’جملے‘‘ ادھرسے ادھرہوتے ہیں اورکون سی نئی بات کہہ دی جاتی ہے۔ویسے یہ سب کچھ صرف کہنے کی ہی حدتک ہوتے ہیں۔ مہاراشٹرمیں ان کی اپنی حکومت ہے،ڈھائی برس کے اندرسینکڑوں کسان خودکشی کرچکے ہیں،پنجاب بدحال ہے ،پھروہ آخرملک کوکس طرح کاترقی یافتہ دیش بناناچاہتے ہیں۔بھولے بھالے کسانوں نے تواس امیدپرجن دھن یوجناکے اکاؤنٹ کھلوائے تھے کہ پندرہ لاکھ نہ سہی کچھ ہی آجائیں لیکن امت شاہ کے’’ انتخابی جملے ‘‘نے ساری امیدوں پرپانی پھیردیا۔مودی جی نے بدعنوانی پربھی پوری طرح عدمِ برداشت کی بات کہی تھی،کرپشن کے الزام پروہ منموہن سنگھ کوکھلے منہ کوستے رہے لیکن جب باری آئی اپنی توموت برت رکھ چکے ہیں۔گؤرکشکوں پرزبان کھولی بھی تواس طرح گویاوزیراعظم نہیں،ایک بے اختیار،مجبورولاچارمشیرکوئی مشورہ دے رہاہو۔جوانتہائی غیرذمہ دارانہ بیان ہے۔پی ایم کے ’غصہ ‘کااظہار زبان سے ہورہاہے،جودراصل گجرات میں دلتوں کی تحریک کاسائیڈافیکٹ ہے۔اگرماڈل(گجرات)ہی ہاتھ سے کھسک گیاتوپاس رہ کیاجائے گاجسے دکھاکرملک کولالی پاپ دیاجاتارہاہے۔چنانچہ اس دونوں تقاریرمیں مسلمانوں کاذکرغیر متوقع نہیں ہے۔کیونکہ ان کے’’پریوار‘‘میں ملک کے مین اسٹریم میں مسلمانوں کاتصورہے ہی نہیں۔ان کاتعلق کسی بھی ’پریوار‘سے ہولیکن آئینی عہدہ پررہنے اورملک کے ذمہ دارکی حیثیت سے تمام شہریوں کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے جہاں کسی بھی طرح کی تفریق آئینی ذمہ داریوں سے فرارکی کوشش ہے۔پھربھی دلت اب جھانسے میں نہیں آرہے ہیں ،خبرہے کہ گجرات کی پٹیل اوردلت کمیونٹی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں انے اظہارِیکجہتی کیاہے۔ضرورت ہے کہ دلتوں کی ناراضگی کوکم نہ ہونے دیاجائے ،یہ غصہ ملک گیرہو،اوراسی تیورکوکم ازکم یوپی ،گجرات اورپنجاب الیکشن تک برقراررہنے دیاجائے۔یہ بھی حیرت انگیزہے کہ وزیراعظم کے بیانات کے بعدبھی فرقہ پرستوں کی صحت پرکوئی اثرنہیں پڑاہے۔بلکہ روزایسے واقعات پیش آہی رہے ہیں،اس سے بس دوپہلو سمجھ میں آتاہے کہ یاتو وزیراعظم کابیان ’من کی با ت‘نہیں ہے۔یاپھرپی ایم انتہائی کمزوراورلاچارومجبورہیں۔یومِ آزادی کے موقعہ پرملک بھرمیں حب الوطنی کاجذبہ پیداکرنے کیلئے حکومت مہم چلارہی ہے۔ظاہرہے اس کی ضرورت توانہیں ہوگی ہی جن کاوطن کی آبیاری اورآزادی میں کوئی حصہ نہیں رہاہے۔غیربرہمنی اکثریت اورملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کوحب الوطنی سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے،ملک کاایک ایک ذرہ اس کی قربانیوں کی تاریخ سے مزین ہے۔حب الوطنی اوردیش بھکتی توگوڈسے کے پجاریوں کوسکھاناچاہئے۔
اوربات اورعرض کرنی ہے کہ بہاران دنوں بحران کاشکارہے۔کہیں ڈوب رہاہے اورکہیں جل رہاہے۔14اضلاع سیلاب سے متاثرہیں۔95افرادکی جان جاچکی ہے ۔سیمانچل میں جہاں مسلمانوں نے سیکولرزم کے سورماؤں کوکامیاب بنایاتھا،زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ حکومتی سطح پرانتہائی سردمہری کامظاہرہ کیاگیابلکہ دوہرابرتاؤبرتاگیا۔کٹیہارکے مقامی ایم پی طارق انورتک نے بے حسی برتی ۔یہ سوال درست ہے کہ انہیں آرٹیکل لکھنے کیلئے پارلیمنٹ نہیں بھیجاگیاہے۔اسی طرح چھپرہ میں مسلمانوں کی بیس دکانیں نذرِآتش کی گئیں۔حالات انتہائی کشیدہ رہے لیکن نتیش سرکارکاغیرذمہ دارانہ رویہ رہا۔دراصل مودی،نتیش اورکجریوال میں قدرِمشترک یہی ہے۔مودی عالمی لیڈربننے کی کوشش میں بیرون ملک رہتے ہیں۔نتیش نیشنل لیڈربننے کیلئے ملک بھرکی سیرکررہے ہیں۔کجریوال کی ساری توجہ دہلی چھوڑکرگجرات،پنجاب اورگواپرہے۔دہلی میں بنیادی سہولتوں کافقدان یعنی سڑک،بجلی اورپانی کاسخت بحران ہے۔ وزیراعلیٰ یاتومرکزسے لڑنے میں مصروف ہیں یاپھر دہلی سے باہرگھومنے پر۔اسی طرح نتیش کمارکوصرف یوپی ہی نظرآرہی ہے۔یہ اعتراض جائز ہے کہ ہمددردانِ قوم وملت انہیں ’’ووٹ کٹوا‘‘یا’’بی جے پی کاایجنٹ‘‘کیوں نہیں بتارہے ہیں؟۔اویسی کوخط لکھ کربہارالیکشن نہ لڑنے کامشورہ دینے والے’’خیرخواہان‘‘نتیش اورملائم کے مسئلہ پرچپی کیوں سادھ لیتے ہیں؟۔دراصل وطن عزیزمیں خصوصاََاقلیتوں کاکوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ان حالات کے خلاف ایک اورجدوجہد آزادی اکثریتی طبقہ کے انصاف پسندوں کے ساتھ ملک کرلڑنے یاکم ازکم ان کاساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ جنگ حکمت وتدبرسے لڑنی ہوگی ،محبت کے پھول کھلاکر جمہوری قدروں اوراس کی روح کوبرادران وطن کے سامنے لاناہوگا،باہمی اخوت کے پیغام کوعملی طورپرپیش کرکے آرایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیموں کی کوششوں پرپانی پھیراجاسکتاہے۔برادران وطن کاایک بڑاطبقہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی لڑائی لڑنے کیلئے تیارہے ۔حالات انتہائی نازک ہیں،سنجیدہ غوروفکرکی ضرورت ہے ۔بہرحال وطن عزیزکوپھربھی یومِ آزادی مبارک۔اس امیدمیں کہ شایدکوئی بہارآجائے۔؍ (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)

ایک نظر اس پر بھی

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک ...

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ...

بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات

بھٹکل کے قائد قوم  جناب  حسن شبر دامدا  جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا،   قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک  تھے اور  اپنی پوری زندگی  قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ  جنوری 2019 میں ...

تفریح طبع سامانی،ذہنی کوفت سے ماورائیت کا ایک سبب ہوا کرتی ہے ؛ استراحہ میں محمد طاہر رکن الدین کی شال پوشی.... آز: نقاش نائطی

تقریبا 3 دہائی سال قبل، سابک میں کام کرنے والے ایک سعودی وطنی سے، کچھ کام کے سلسلے میں جمعرات اور جمعہ کے ایام تعطیل میں   اس سے رابطہ قائم کرنے کی تمام تر کوشش رائیگاں گئی تو، سنیچر کو اگلی ملاقات پر ہم نے اس سے شکوہ کیا تو اس وقت اسکا دیا ہوا جواب   آج بھی ہمارے کانوں میں ...