وجئے پور کی آباد اور غیر آباد مساجد پر سری رام سینا کی بری نظر، غیر آباد خواجہ جان مسجد میں باقاعدہ پوجا پاٹ شروع
وجئے پور،31؍مئی(ایس او نیوز؍رفیع بھنڈاری) تاریخی جامع مسجد سمیت شہر وجئے پور کے متعدد آباد اور غیر آباد تاریخی مساجد پرسری رام سینا کی بری نظریں لگی ہوئی ہیں تو دوسری جانب ڈپٹی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ سے متصل واقع کے ایس ٹی ڈی سی ہوٹل میور کے بالکل بازو کی ایک تاریخی غیر آباد مسجد خواجہ جان مسجد میں باقاعدہ پوجا بھی شروع ہوچکی ہے جو پتھر سے تعمیر کی گئی ایک مندر کی مانند نظر آتی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ عادل شاہی دوران حکومت میں یہاں تعمیر کی گئی تاریخی جامع مسجد کے تعلق سے بھی سوشیل میڈیا میں ایک پوسٹ وائرل ہورہا ہے جس میں ایک داڑھی والا شخص جو مسلمان معلوم ہوتا ہے،نے دیوبند سے ایک یوٹیو ب چینل کے ساتھ بات چیت کے دوران ملک میں کئی منادر مسمار کرکے مساجد تعمیر کئے جانے والی بات کو صحیح قراردیا اور مسلمانوں کو ایسی مساجدہندوؤں کے حوالے کرنے کی بات کررہا ہے اور ساتھ ہی اورنگ آباد اور کرناٹک میں وجئے پور کی تاریخی جامع مسجد کو بھی اس وقت جو مندر تھی، اسے مسمار کرکے مسجد تعمیر کئے جانے کا دعویٰ کررہا ہے۔
مذکورہ دیوبندی کہلائے جانے والے اس مسلم شخص کی جانب سے یہاں کی تاریخی جامع مسجد کو مندر ہونے کا دعویٰ کئے جانے کے بعد یہاں مقامی سنٹر رام سینا کے رضاکار متحرک ہو گئے اورتاریخی شہر کے جن قدیم و تاریخی مساجد کے، مندر ہونے کی فہرست تیار کی ہے،اس میں اب جامع مسجد کو بھی شامل کرلیا گیاہے۔معلوم ہوا ہے کہ سری رام سینا نے تاریخی شہر وجئے پور کے 4 غیر آباد تاریخی مساجد کے علاوہ 4آباد مساجد جہاں پنچ وقتہ نمازیں ہورہی ہیں، اس جگہ پہلے مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور انہیں مسمار کرکے مندر بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ چار غیر آباد تاریخی مساجد جو پتھر کی مندر جیسا اسٹرکچر اختیار کرچکی ہیں، انہیں جین مذہب کے وشواناتھ کی عبادت گاہ قرار دیا جارہا ہے جس کے تعلق سے محکمہ آثار قدیمہ سے یہاں کی جین برادری خط وکتابت شروع کرچکی ہے۔
اس طرح یہاں کی جن چار آباد تاریخی مساجد بشمول تاریخی جامع مسجد کو بھی اس وقت اسی جگہ مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، اس تعلق سے محکمہ آثار قدیمہ کے مقامی حکام نے واضح طور پر کہا ہے کہ شرپسندوں کی شرارت ہوسکتی ہے جو شہر کی پرامن فضا میں خلل پیدا کرنے کا ناپاک ارادہ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیوبند سے جو یوٹیوب وائرل ہورہا ہے وہ جھوٹا اور فیک ہے۔