ضلع شمالی کینرا کے عوام اور بی جے پی لیڈروں سے بنگلورو ہائی کورٹ وکیل ناگیندرا نائک کے کچھ چبھتے ہوئے سوالات ۔۔ (کنڑاسے اُردو ترجمہ : ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ )

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 22nd December 2017, 10:49 PM | ساحلی خبریں | ریاستی خبریں |

بھٹکل 22/ڈسمبر (ایس او نیوز) بنگلور ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ  ناگیندرا نائک کی جانب سے ایک تفصیلی رپورٹ  گذشتہ روز ایک کنڑا روزنامہ میں شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے  بی جے پی لیڈران سمیت ضلع اُترکنڑا کے عوام سے کئی چھبتے ہوئے سوالات پوچھے ہیں۔  ساحل آن لائن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے  اس کا اُردو ترجمہ  پیش کرنے اور عوام الناس کو حالات سے باخبر کرنے کی  درخواست کی تھی، رپورٹ کی حساسیت اور اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس کا اُردو ترجمہ ڈاکٹر محمد حنیف شباب کے تعائون سے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

ضلع شمالی کینر امیں آج کل جو حالات درپیش ہیں انہیں دیکھ کر میرے ذہن میں گزشتہ تقریباً25سال پرانے واقعات اور مناظر ابھر نے لگے۔ جب میں نے اس کا ذکر اپنے ایک اور ساتھی سے کیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے اسے ہوا میں اڑا دیا کہ گاؤں کی فکر میں دبلے ہونے کی ہمیں کیا ضرورت ہے! لیکن جب ہم بزرگ اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں گے تو ہماری یہ بے تعلقی سماج میں بدامنی پیدا کرنے کا سبب ہوجاتی ہے۔لہٰذا میں نے طے کیا کہ کچھ خیالات ، تجربات اور سوالات کو سپرد قلم کردیا جائے۔

1991میں کولاکو اسپتال کے سامنے شروع ہونے والے ہندومسلم فساد کا سبب ایک ہندوڈرائیور کا رکشہ ایک مسلمان سے ٹکرانا تھا۔وہ ایک چھوٹا سا حادثہ تھا، اور اس وقت میں بھٹکل میں ہی تھا۔ وہاں سے شروع ہونے والا فساد 1993کے رام نومی تہوار کے دن تک پہنچ گیا۔

(نوٹ:یہاں ناگیندرا نائک سے چوک ہوگئی ہے۔ 1991میں فساد کولاکو کے پاس حادثے سے شروع نہیں ہواتھا، بلکہ اس کا سبب نور مسجد کے پاس نماز عصر کے وقت بابری مسجد تنازعہ کے پس منظر میں ایک آٹو رکشہ پر مائک کے ذریعے بلند آواز میں سنائی جارہی سادھوی رتمبرا کی اسلام اور مسلم مخالف انتہائی اشتعال انگیز تقریرتھی جس پر کچھ مسلمانوں کی طرف سے اعتراض سے جھگڑا شروع ہوا جو فساد میں بد ل گیا۔ کولاکو کے پاس والا معاملہ اس سے بہت پہلے کی بات تھی۔مترجم)

سبب کچھ بھی رہا ہواس وقت فائرنگ میں دو لوگ جانیں گنوابیٹھے تھے۔

(ایک پولیس سب انسپکٹر نے فائرنگ کی تھی اور مرچی گلی کے پاس دومسلم نوجوان ہلاک ہوئے تھے۔ مترجم)

1993کے فساد میں بہت سارے ہندو اور مسلمانوں نے جانیں گنوائیں۔ مرنے والا کوئی بھی فساد میں شامل نہیں تھا۔(یہ بات بھی صد فی صد سچ نہیں ہے۔ مترجم) گھر میں سوئے ہوئے، کام پر جانے والے، قلی مزدوری کرکے زندگی گزارنے والے ہلاک ہوئے تھے۔مرنے والے مر گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 1994میں ڈاکٹر چترنجن کی اسمبلی رکنیت کے ساتھ بی جے پی نے یہاں کھاتہ کھولا۔

جسٹس جگناتھ شیٹی کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن میں حلف نامے (ایفی ڈیویٹ) داخل کرنے کے لئے ڈاکٹر چترنجن اور کولّے وغیرہ کے ساتھ میں نے بھی بہت ہی زیادہ دلچسپی دکھائی تھی۔اس وقت مجھے ہندوتوا کا بھرم تھا۔ صحیح غلط کا کوئی شعور نہیں تھا۔اس وقت انٹرنیٹ اورسوشیل میڈیا کا جال نہیں تھا۔کوئی بھی واقعہ آج کل کی طرح انتہائی تیز رفتاری سے افواہ بن کر عام نہیں ہوا کرتاتھا۔کوئی عقل اور ہوش کی باتیں بتانے والا نہیں تھا۔اگر کوئی بولتا بھی تو میرے اندر اسے قبول کرنے کا مادہ بھی موجود نہیں تھا۔کیونکہ میں اس وقت گرم خون والا ایک نوجوان تھا۔نوجوان بہت ہی حساس ہوا کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے جذبات کو بھڑکانا آسان ہوتا ہے۔اس سے نوجوان طبقہ جوش میں آجاتا ہے۔

1993کے بعد بھٹکل میں ہندو مسلم فساد دوبارہ نہیں ہوا۔ 10-04-1996کو اس وقت کے رکن اسمبلی ڈاکٹر چترنجن کو گولی مارکر ہلاک کیا گیا۔اس وقت بی جے پی کے قومی صدر ایڈوانی آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے بھٹکل پہنچے تھے۔ بہت ہی جوشیلی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے انصاف دلانے کا تیقن دیا تھا۔ 27-04-1994کوبدلتی ہوئی ہوا کے اس رخ نے موجودہ ایم پی اننت کمار ہیگڈے کو پہلی مرتبہ رکن پارلیمان بنادیا۔اس دن سے آج تک صرف ایک میعاد کو چھوڑکر بقیہ تمام میعادوں کے دوران وہی ہماری نمائندگی کررہے ہیں۔

1991کے فساد کے بعد سے ریاست کے ساحلی علاقے میں ووٹوں کی تقطیب(دو مرکزوں میں بٹ جانا،Polarization۔ مترجم)شروع ہوگئی ۔اور ساحلی علاقے میں بی جے پی کو قدم جمانے کے لئے زمین دستیاب ہوگئی۔ہم سب ایک بھرم میں گم تھے۔ سوچاتھا کہ ہندوؤں کا تحفظ ہوگا، ترقی ہوگی۔ 1991سے 1997تک سات سال کا عرصہ گزرگیا۔ہماری قوت برداشت بھی ختم ہونے لگی۔ مجھ جیسے بہت سارے نوجوانوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ یہ سیاسی چالیں ہیں۔1998میں ڈاکٹر چترنجن قتل کی تحقیقات عدالت  کی نگرانی میں انجام دینے کی درخواست کرتے ہوئے میں نے ہائی کورٹ میں رِٹ پٹیشن داخل کی۔ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو اس ضمن میں ہدایات بھی جاری کیں۔ اس وقت برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہماری درخواست پر ہائی کورٹ میں اعتراضات داخل کیے تھے۔ضلع شمالی کینرا کی بی جے پی یونٹ نے تحقیقات جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے' راستہ روکو 'بھی کیا تھا۔کچھ سینئر قائدین کومیرا وہ سوال یاد ہوگا جو میں نے پوچھا تھاکہ جب آپ لوگ ہی اقتدار میں ہو تو پھر قاتلوں کو گرفتارکرنے کے لئے کیا کسی لاری ڈرائیور کی اجازت چاہیے؟اسی دوران اس وقت کے ایک اور بی جے پی لیڈرتمپّا نائک کا قتل ہوجاتا ہے۔ان کے گھر پہنچ کر تعزیت کرنے والے ایڈی یورپا نے انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا۔مرکز میں ایڈوانی نے وزیر داخلہ کا منصب سنبھالا۔ پارلیمنٹ میں ہمارے ضلع کی نمائندگی پانچ مرتبہ بی جے پی کے پاس ہی رہی۔کرناٹک میں پورے پانچ سال بی جے پی کی حکومت رہی ۔ دو سال تک ملی جلی سرکار رہی۔

ضلع کے تمام اسمبلی حلقوں سے بی جے پی نے نمائندگی کی ہے۔مگر ایک مرتبہ بھی ماضی میں ہوئے قتل کی تحقیقات کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔جب بی جے پی برسراقتدار تھی اور یہی ایڈی یورپا وزیراعلیٰ تھے تو تمپّا نائک کے بیٹے نے خود ان سے ملاقات کرتے ہوئے یادداشت پیش کی تھی۔اس وقت ان کی بات سے اتفاق کرنے والے ا یڈی یورپا کو پوریورتن یاترا کے دوران ان کی یاد بھی نہیں آئی۔تمپّا نائک آج ایک ایسی شخصیت ہے جو کسی کو بھی یاد نہیں رہی۔ ڈاکٹر چترنجن اور تمپّا نائک کے قتل کی تحقیقات کاباب اب بند ہوچکا ہے۔ ان کے کھوجانے کاغم ان کے خاندانوں تک ہی محدود ہے۔ ان کی پارٹی کو صرف انتخاب کے موقع پرہی ان کی یادآتی ہے۔

جسٹس رامچندریا کیمشن کی رپورٹ( ڈاکٹر چترنجن قتل کے سلسلے میں۔مترجم) ) اور جسٹس جگناتھ شیٹی کمیشن کی رپورٹ(۹۳کے بھٹکل فسادات کی تحقیقات۔ مترجم) ودھان سودھا کے ریکارڈ روم میں دھول چاٹ رہی ہے۔ان رپورٹوں کی یاد صرف انتخابات کے دنوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

یہ کہنے میں کوئی بھی شک نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کی موت کا نقصان اس کے خاندان کے لئے ناقابل تلافی ہوتا ہے۔اس کی تحقیقات ہونی ہی چاہیے اور خاطیوں کو سزا ملنی ہی چاہیے۔ اس مقصد کو پانے کے لئے اپنی ذمہ داری نبھانے میں مصروف پولیس پر حملے کرنا ، اس کے لئے اشتعال دلانا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ پولیس کا نظام ہم نے اپنے ہی تحفظ کے لئے تیار کیا ہوا ایک دستوری حصہ ہے۔کیا پولیس والے کسی دوسرے دیش سے آئے ہوئے لوگ ہیں؟ان کا بھی سنسار اور خاندان ہوا کرتا ہے۔کیا پولیس کے بغیر سماجی زندگی کا تصورکرنا ممکن ہے؟چوٹ کھانے والی پولیس اپنے آپ پر ضبط نہ رکھتے ہوئے اگر فائرنگ کرتی تو دو چار لاشیں گرنا یقینی تھا۔بے قصور لوگ مارے جاتے۔فساد پر اکسانے والے یا لیڈر نہیں مرے ہوتے۔ 

آپ لوگ جو کچھ کررہے ہو آخر اس کا انجام کیاہوگا، اس کے بارے میں ایک لمحے کے لئے سوچو۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ ان فسادات میں شامل ہونے والے سب غریب اور پچھڑے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔اس موقع پر ذرا غور کرو اور سوچو کہ کون تمہارا استعمال کررہا ہے۔تمہارے اپنے دماغ کو دوسروں کے کمانڈ (حکم) کے تابع کرنے کے بجائے اسے خوداپنے کمانڈ میں رکھنا تمہارے مفاد میں ہوگا۔

آپ سب کو تعجب ہوگا۔ ہوناور میں فساد ہوا۔ کمٹہ میں فساد ہوا۔ لیکن بھٹکل جیسے بہت ہی حساس علاقے میں کسی نے بھی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔پتہ ہے کیوں؟ اس کے پیچھے بہت بڑا تجربہ ہے۔ 1991سے کیس میں پھنسے ہوئے لوگوں کا معاملہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔اسی میں ان کی پوری زندگی گزر گئی ہے۔ کوئی ایم ایل اے بن گیا۔ کوئی ایم پی بن گیا۔ کچھ لوگ وزیر بن گئے۔ مرنے والے مرگئے۔ مرنے والوں کے اہل خانہ نے اپنے پیاروں کو کھویا۔ کچھ لوگ راوڈی شیٹ(غنڈوں کی فہرست۔مترجم)میں شامل ہوگئے۔کچھ لوگوں نے جیل کی ہوا کھائی۔ کچھ لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کمٹہ میں بہت سارے بے قصوروں پر کیس داخل کیے گئے ہیں۔یہ فسادا ت ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ پولیس کو بھی فسادات پر قابو پانے کے لئے لازمی طور پر مقدمات درج کرنے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ پر قابو رکھیں تو ممکن ہے کہ اس طرح کے نتائج بھگتنے سے بچ جائیں۔

سیاسی پارٹیوں کی اس پالیسی کی مخالفت کی جائے تو آپ کو دیش کے غدار، ہندو دشمن جیسے خطابات اور فحش کلمات سے نوازا جاتاہے۔لیکن یہ میری راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ۔
کچھ سوالات ہیں جوہندوتوا کی بات کرنے والے بی جے پی کے لیڈروں سے آپ کو کرنے ہی ہونگے:
۱۔ تمہیں اقتدار میں آئے ہوئے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ماضی میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو اب تک انصاف کیوں نہیں ملا؟
۲۔ چترنجن قتل کی تحقیقات کا باب بندہوجانے کے باوجودتم لوگوں نے کیا کوششیں کی ہیں؟
۳۔ تمپّا نائک کے خاندان کو کونسا انصاف ملا ہے؟تھوڑا سا معاوضہ بھی انہیں ملا ہے کیا؟
۴۔ جسٹس رامچندریا کمیشن کے رپورٹ تمہاری میعاد میں کیوں جاری نہیں کی گئی؟
۵۔ جسٹس جگناتھ شیٹی رپورٹ کا کیا ہوا؟
۶۔ ہندوتوا کے بارے میں باتیں کرنے والے تم لوگ، اگر خود اپنی ہی زبان سے پی ڈی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر ، پھر اسی کے ساتھ کشمیر میں گٹھ جوڑ والی سرکار بناسکتے ہو تو پھر ہم لوگ اپنے پڑوس کے مسلم بھائیوں کے ساتھ بھائی چارگی والی زندگی گزاریں تو اس میں کیا قصور ہے؟
۷۔ ضلع شمالی کینراکی نمائندگی ایک بڑے عرصے یعنی 1994عیسوی (۲۳سال)سے بی جے پی کررہی ہے۔ اس عرصے میں تم نے دیا کیا ہے؟
۸۔ سوائے طبقاتی کشمکش بڑھانے کے تم لوگوں نے اور کونسااچھا کام کیا ہے؟
۹۔ ان فسادات سے کاروبار کا کتنا نقصان ہوا ہے ، کیا تمہیں اس کی خبر ہے؟
۱۰۔ روزانہ قلی مزدوری کرنے والے کتنے لوگ بے روزگار ہوئے اس کا کچھ پتہ ہے؟
۱۱۔ سماج میں بد امنی پھیلانے سے اس کا فائدہ کس کو ہوگا یہ سوچنے والی بات ہے۔ایسی سوچ میں ہم لوگوں کو کیوں حصہ دار بننا چاہیے؟
یہ صرف حقیقی صورتحال ہیں جس کوآپ سب کے سامنے پیش کرنے کی میں نے بس ایک کوشش کی ہے!
ناگیندرا نائک 
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، بنگلورو 

ایک نظر اس پر بھی

منگلورو سائی مندر کے پاس بی جے پی کی تشہیر - بھکتوں نے جتایا اعتراض

منگلورو کے اوروا میں چیلمبی سائی مندر کے پاس رام نومی کے موقع پر جب بی جے پی والوں نے پارلیمانی انتخاب کی تشہیر شروع کی تو وہاں پر موجود سیکڑوں بھکتوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی جس کے بعد بی جے پی اور کانگریسی کارکنان کے علاوہ عام بھکتوں کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی

اُڈپی - کنداپور نیشنل ہائی وے پر حادثہ - بائک سوار ہلاک

اڈپی - کنداپور نیشنل ہائی وے پر پیش آئی  بائک اور ٹرک کی ٹکر میں  بائک سوار کی موت واقع ہوگئی ۔     مہلوک شخص کی شناخت ہیرور کے رہائشی  کرشنا گانیگا  کی حیثیت سے کی گئی ہے جو کہ اُڈپی میونسپالٹی میں الیکٹریشین کے طور پر ملازم تھا ۔

بی جے پی کانگریس ایم ایل اے کو رقم کی پیشکش کر رہی ہے: وزیر اعلیٰ سدارامیا

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں پر الزام لگایا ہے کہ وہ کانگریس کے ممبران اسمبلی کو اپنی حکومت کے قیام کے بعد رقم کی پیشکش کر کے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آئین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی: سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا

جنتا دل (ایس) (جے ڈی ایس) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے منگل کو واضح کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو لوک سبھا الیکشن 2024میں 400 سیٹیں مل جائیں آئین میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی۔

بی جے پی نے کانگریس ایم ایل اے کو 50 کروڑ روپے کی پیشکش کی؛ سدارامیا کا الزام

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے ہفتہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ وہ کانگریس کے اراکین اسمبلی کو وفاداری تبدیل کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے کی پیشکش کرکے 'آپریشن لوٹس' کے ذریعے انکی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں ملوث ہے۔