ضلع شمالی کینرا میں وبائی صورت اختیار کرنے والی چمڑی کی بیماری۔ علاج کارگر نہ ہونے سے عوام پریشان
بھٹکل 25/ستمبر (ایس او نیوز) محکمہ صحت کی طرف سے یوں تو وبائی امراض پر قابو پانے کے لئے مختلف پروگرا م اور اسکیمیں موجود ہیں۔ اس میں چمڑی کے امراض میں صرف جذام (کوڑھ/لیپرسی)کے علاج اور روک تھام کی گنجائش ہے۔
لیکن ادھر پچھلے کچھ عرصے سے پورے ضلع میں چمڑی کی ایک نئی بیماری وبا کی صورت میں پھیل گئی ہے جو دیکھنے میں تو معمولی داد اور خارش یا ایکزیما دکھائی دیتی ہے، مگر اس پر دوائیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ جسم پر پھیلتی چلی جاتی ہے۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے عوام کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کو اس مرض کے بارے میں بھی جائزہ لینے اور اسے وبائی امراض میں شامل کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے لئے منصوبے بناناچاہیے۔
اس مرض میں جسم کے مختلف حصوں پر لال اور گول چکتّے (rashes) ابھر آتے ہیں اور ان میں تیز کھجلی شروع ہوجاتی ہے۔ اکثر وبیشتر مریض دواؤں کی دکان پر جاکرداد اور خارش کے عام مرہم خود ہی خرید لیتے ہیں جس میں شامل ایک سے زائد قسم کی دواؤں میں اسٹیرائڈ (کلوبیٹاسول، بیکلومیتھازون وغیرہ) بھی ملی ہوئی ہوتی ہے۔ اس سے وقتی طور پر کچھ راحت ملتی ہے مگر کچھ ہی دنوں بعد یہ مرض پھر سے تازہ ہوجاتا ہے اور پہلے سے زیاد ہ بڑے حصے پر پھیل جاتا ہے۔ جوں جوں دوائیاں لی جاتی ہیں، اور اسٹیرائڈ والے عام مرہم لگائے جاتے ہیں اس میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کے لئے یہ نئی بیماری بڑا سردرد بن گئی ہے۔اس کی اصل وجوہات کے بارے میں کوئی بھی قطعی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ماحولیاتی اثرات، جسم میں کم ہوتی ہوئی مدافعتی قوت(امیونیٹی)، غذا میں ہر سطح پر استعمال ہونے والے کیمیکل، فضائی آلودگی جیسے اسباب پر غور کیا جارہا ہے مگر کسی ایک سبب کی نشاندہی ہونہیں پائی ہے۔
ماہرین امراض جلد کا کہنا ہے کہ یہ ایک فنگل انفیکشن ہے، اور آج کل پورے ملک میں یہ ایک وبائی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اکثر جنرل ڈاکٹرز اسے ایکزیما یا dermatitisسمجھ لیتے ہیں اور اسی انداز سے علاج کرتے ہیں۔ مگر اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اسٹیرائڈوالے مرہم کے استعمال سے حالیہ دنوں میں جلد کو لاحق ہونے والے مرض کے فنگس کو ختم کرنے کے بجائے اس کی افزائش میں مدد مل رہی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ مرض بار بار نمودار ہورہا ہے۔ اس میں بچے، بوڑھے، خواتین مرد سبھی مبتلا ہوگئے ہیں اور علاج کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔جہاں چمڑی کے امراض کے ماہر ڈاکٹر موجود نہیں ہیں وہاں پر لوگ یاتو جنرل ڈاکٹرز کے پاس جاتے ہیں یا پھر خود ہی دکانوں سے مرہم اور گولیاں خرید کر اپنا علاج خود ہی کرنے لگتے ہیں جس سے یہ مرض اور بھی پیچیدہ ہوتاجارہا ہے۔
لہٰذا امراض کے جلد کے بہت سے ماہرین نے اسٹیرائڈ والے مرہموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے اور معالجین کوبھی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ برسہابرس سے جلدی امراض میں استعمال کیے جارہے تمام کارٹیکو اسٹیرائڈوالے مرہموں سے پرہیز کریں۔
جن لوگوں کو یہ مرض لاحق ہوا ہے ان کے لئے صحیح علاج بہت ضروری ہے جس کا فیصلہ ماہرڈاکٹرہی کرسکتے ہیں۔ اس میں اینٹی فنگل گولیاں اور بغیر کامبی نیشن اوربغیر اسٹیرائڈ والے مرہم شامل ہیں۔ اس کے لئے موجودہ حالات میں ماہرین امراض جلد نے جس قسم کی گولیوں اور مرہم کو درست قرار دیا ہے اس کا خرچ البتہ مریض کی جیب پر بھاری پڑتا ہے، کیونکہ گولیاں کافی مہنگی ہیں اور علاج کو مختلف مرحلوں میں کافی لمبے عرصے تک دہرانا پڑسکتا ہے۔اس کے علاوہ علاج کے دوران گوشت، انڈے، بعض قسم کی مچھلیوں اور جھینگے وغیرہ سے پرہیزکرنے سے مرض پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔