لکھنؤ، 2؍فروری (ایس او نیوز؍ایجنسی) سخت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) اور منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ (پی ایم ایل اے) کے تحت 27 ماہ سے جیل میں بند کیرالہ کے صحافی صدیق کپن جمعرات کی صبح لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل سے رہا ہوگئے۔
یادرہے کہ کیرالہ کے ملاپورم کا رہنے والا صحافی صدیق کپن کو 5 اکتوبر 2020 کو ہاتھرس جاتے ہوئے تین دیگر افراد کے ساتھ ہاتھرس میں بدامنی پھیلانے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جہاں وہ ایک دلت لڑکی کے ساتھ مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کو کور کرنے جا رہے تھے۔ انہیں ابتدائی طور پر امن میں خلل ڈالنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں ان پر یو اے پی اے کی دفعہ 17/18، دفعہ 120B، 153A/295A IPC، 65/72 آئی ٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھ گاڑی میں سوار افراد ہاتھرس اجتماعی عصمت دری کے بعد فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
صدیقی کپن کو سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 9 ستمبر کو ضمانت دی تھی۔ مگر وہ جیل میں ہی قید تھے اور اب وہ منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ (PMLA) کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد ایک ماہ بعد باہر آگئے ہیں۔ جیل میں قید کے دوران ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ان کی ضمانت کا معاملہ بحث کا موضوع بن گیا تھا۔
جیل سے باہر آنے کے بعد ایک صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے صدیق کپن نے کہا کہ "مجھے عدالتی عمل پر پورا بھروسہ ہے، مجھے یقین ہے کہ سچ سامنے آئے گا، میں بنیادی طور پر بے قصور ہوں، 28 ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد رہا ہونے پر بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں،" صدیق کپن جس کی طویل حراست نے عالمی توجہ مبذول کروائی اور سوشیل میڈیا میں چرچہ میں رہنے اور بھارت میں پریس کی گرتی ہوئی آزادی کی باتوں کے درمیان مسٹر کپن نے جیل سے باہر آنے کے بعد یو اے پی اے کو سیاسی ٹول قرار دیا جس کے تحت کسی کو بھی گرفتار کرنے کا اختیار پولس کو حاصل ہے۔