کوروناروک تھام اورکووڈطبی آلات کی خریداری میں 2,200کروڑروپے کا غبن
پیکیج کی تقسیم میں گڑبڑ، سی ایم راحتی فنڈمیں جمع شدہ 290کروڑروپے کہا ں خرچ کئے گئے؟ سدارامیا
بنگلورو،4؍جولائی(ایس او نیوز) عالمی وباکوروناوائر س کی روک تھام اورمتاثرین کے علاج ومعالجہ کے لیے درکارطبی آلات کی خریداری میں 2,200کروڑروپے کابڑامالی گھوٹالہ ہواہے۔یہ گمبھیرالزام اپوزیشن لیڈروسابق وزیراعلیٰ سدارامیا نے عائدکیاہے۔
ودھان سودھامیں اخباری نمائندوں سے بات چیت کے دوران سدارمیانے کہا کہ کووڈکے علاج کے لیے آلات طب کی قیمت مارکیٹ کے حساب سے 116.65کروڑروپے ہے لیکن ریاستی حکومت نے ان آلات کو3392کروڑروپے دیکرخریدای کی ہے۔اس طرح حکومت نے 2200کروڑروپے کا غبن کاارتکاب کیاہے۔ وینٹی لیٹرکی قیمت 4 ہزارروپے ہے ا س قیمت کے مطابق ایک ہزاروینٹی لیٹر کی خریدای کے لیے 40کروڑروپے خرچ کی جانی چاہئے تھی لیکن 120کروڑر وپے خرچ کئے گئے ہیں۔ خودکی حفاظت کا پیرہن (پی پی ای) کٹ کی مارکیٹ میں فی کس قیمت 995روپے ہے۔ حکومت نے 4.89لاکھ پی پی ای کٹ کی خریداری کی ہے،اس حساب سے پی پی ای کٹ کی خریدی کے لیے 48.65کروڑروپے ہوناچاہئے لیکن حکومت نے اس کے لیے 150کروڑروپے خرچ کئے ہیں۔ 10لاکھ ماسک کی خریدای کے لیے 20کروڑروپے کی بجائے 40 کروڑروپے کا خرچ حساب بتایا جارہاہے۔10لاکھ سرجیکل گلاؤز کے لیے 20کروڑروپے کی بجائے 40 کروڑ روپے کابل بنایاگیاہے۔ کووڈٹیسٹ گلاؤزکے لیے 40 کروڑروپے کی بجائے 65کروڑروپے کاحساب دکھایا گیا ہے۔آکسیجن سلینڈرکی فی کس مارکیٹ قیمت 5ہزارروپے ہے لیکن فی کس 14ہزارروپے کا بل بنایا گیا ہے۔ اس طرح کل قیمت 43کروڑروپے کی بجائے 80 کروڑروپے کا بل بناکرغبن کاارتکاب کیاگیاہے۔
انہو ں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ ریاست میں 6.2 لاکھ افراد کو کوروناٹیسٹ سے گزاراگیاہے جس کے لیے فی کس 4ہزارروپے بھی اگربطورخرچ حساب لگایاجاتاہے تو جملہ لاگت 248کروزروپے بنتی ہے لیکن حکومت نے اس کے لیے 2300کروڑروپے خرچ کئے ہیں۔ متاثرین کے یومیہ اخراجات کاحساب لگائیں تو100کروڑروپے سے آگے نہیں جاسکتاہے۔لیکن حکومت 525 کروڑورپے کا خرچ بتارہی ہے۔ سدارامیانے مزیدکہا کہ ہنڈسینی ٹائزرکے لیے 80کروڑروپے،صابون کی خریداری کے لیے 10کروڑروپے ودیگراخراجات کے لیے 1732 کروڑروپے کا خرچ بتایاجارہاہے۔اس تفصیل کے بعدسدارمیانے کہا کہ یہ رقم کوئی معمولی نہیں،حکومت نے بڑے پیمانے پرمالی بدعنوانی کاموقع فراہم کیاہے۔اس لیے اس غبن کی مناسب طریقہ سے جانچ کی جانی چاہئے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ کوروناوائرس جب ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھا اس وقت اچانک لاک ڈاؤن کردیاگیا جب کہ کووڈکے معاملات بڑھنے لگے ہیں توحکومت خاموش بیٹھی ہوئی ہے،لاک ڈاؤن کے دوران طبی سہولتیں سمیت بنیادی ڈھانچہ جات میں اضافہ کرنے کا سنہری موقع تھا لیکن حکومت اس وقت کچھ بھی نہیں کیا،ریاستی اورمرکزی حکومتیں مناسب حکمت عملی طے کرنے میں بری ناکام رہی ہیں۔ حکومت نے انتہائی لاپروائی کا مظاہرہ کیاہے،ثبوت کے طورپر بلاری میں کووڈلاشوں کی تدفین کے وقت کیا گیا توہین آمیزسلوک ہے۔ چنداہلکاروں کومعطل کرنامسئلہ کا حل نہیں ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ وزراء کے مابین تال میل کی کمی ہے،وزیراعلیٰ کے ہاتھوں سے کچھ ہونے والانہیں،ان کی بات تک کوئی سن نہیں رہا۔پہلے کووڈمعاملات کی نگرانی ڈاکٹرسدھاکرکودی گئی تھی،بعدمیں سری راملوکودی گئی،ان دونوں کے جھگڑے بعد یہ ذمہ داری سریش کمارکوپھراب آراشوک کویہ ذمہ داری دی گئی ہے۔ سدھاکرکوعلاج ومعالجہ سے متعلق عام جانکاری بھی ہوتی توان کوذ مہ داری دی جاسکتی تھی۔اسپتالوں میں مریض بیڈنہ ملنے سے پریشان ہیں،حکومت کی جانب سے دئے جارہے اعداد وشمارصحیح نہیں ہیں،ایک مہینے کے دوران 40ہزارافراد کووڈسے متاثرہوئے ہیں،اس کے باوجودحکومت کوئی بھی پیشگی احتیاطی اقدامات اور تدابیر بروئے کارنہیں لارہی ہے۔حکومت سے جانب سے اعلان کردہ پیکیج صحیح طریقہ سے پہنچایا نہیں جارہا۔ سدارامیانے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم کیرمیں کتنی رقوم جمع ہوئی ہے؟ سی ایم راحتی فنڈمیں جمع شدہ 290 کروڑ روپے کہاں خرچ کئے گئے؟۔