لندن: جسٹس چندرچوڑ کو بابری مسجد اور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک پر سوالات کا سامنا
لندن ، 25؍ جون (ایس او نیوز؍ایجنسی) سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو پیر کو لندن کے کنگز کالج میں منعقدہ’ انسانی حقوق کا تحفظ اور شہری آزادیوں کا تحفظ : جمہوریت میں عدالتوں کا کردار کے موضوع پر ایک سیمینار کے دوران کچھ سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سے سپریم کورٹ کے ذریعے ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کو دیے گئے انصاف کے بارے میں پوچھا گیا، جس میں ملک میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو من مانے طریقے سے منہدم کرنے کے لیے بلڈوزر کے استعمال ، حجاب کے تنازع ، بابری مسجد کے فیصلے ، اور یہاں تک کہ آرٹیکل370 کی منسوخی جیسے معاملات سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔
جسٹس چندر چوڑ نے زیادہ تر سوالات کے لیے اس حقیقت کا حوالہ دیا کہ کیس فی الحال عدالت میں ہے اور وہ ان پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ وہ ایک جج ہیں ، اس تناظر ، پر کچھ پابندیاں عائد ہیں ۔ بابری مسجد کے معاملے میں جہاں سپریم کور ٹ نے رام جنم بھومی مندر کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس فیصلے پر تنقید کا حصہ بننا درست نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ عدالتیں مسلم یا دیگر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے معاملات کو نہیں نمٹاتی ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں کی مسماری سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے تعطیلاتی بنچ نے معاملہ اٹھایا اور اس معاملے پر نوٹس جاری کیا۔
سیمینار میں جسٹس چندر چوڑ نے مشاہدہ کیا کہ اکثر سپریم کورٹ کو دفاع کی پہلی لائن کے طور پر سمجھا جاتا ہے، یا معاشرے کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلوں کے لیے ایک اہم مقام سمجھا جا تا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ عدالت عظمیٰ کو بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔انہوں نے میڈیا کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اکثر نیوز میڈیا اور سوشل میڈیا،مسلمانوں اور دیگر پسماندہ برادریوں سے متعلق مقدمات کو اجا گر نہیں کرتا جن سے سپریم کورٹ نمٹ رہی ہے۔ مذہب کی آزادی اور ان کے حقوق کے معاملات میں ، انہوں نے حوالہ دیا کہ عدالت نے لسانی یا مذہبی تناظر میں مذہبی فرقوں حقوق کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقلیتوں کے تعلیمی مراکز قائم کرنے کے حقوق کو برقرار رکھا ہے۔ کنگز کالج میں منعقدہ سیمینار، جو ویب پر بھی نشر کیا گیا، جسٹس چندر چوڑ نے انسانی حقوق کے بہت سے اہم مقدمات پر روشنی ڈالی جن پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے ۔