سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات میں ٹیکس کی چھوٹ ختم
ریاض/ شارجہ 27دسمبر (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا )پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور خطے کے د یگر ملکوں کے لاکھوں شہریوں لیے بغیر ٹیکس کے آمدنی اور ا شیاء میں خلیجی ممالک میں ملازمت کی ایک اہم وجہ رہی ہے۔ تاہم اب یہ تبدیل ہونے کو ہے۔سعودی عرب متحدہ عرب امارات ٹیکس میں چھوٹ دینے کے سبب ایک عرصے سے غیر ملکی ملازمین کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہونے کو ہے۔ دونوں ممالک آئندہ برس سے سامان و سروسز پر پانچ فیصد ٹیکس لگانے والے ہیں۔ یہ قدم عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ملکی آمدنی گھٹنے کے سبب اٹھایا گیا ہے اور اس کا مقصد کچھ اضافی منافع حاصل کرنا ہے۔ ’ویلیو ایڈڈ کھان پینے کی اشیاء VAT کھانے پینے کی اشیاء ، کپڑے، الیکٹرونک مصنوعات، گیسولین، فون، پانی، بجلی اور ہوٹل کی قیمتوں پر لاگو ہو گا۔ مکانات کے کرائے، پراپرٹی، چند ادویات، ہوائی جہاز کے ٹکٹس اور اسکولوں کی ٹیوشن فیس جیسے اخراجات کو فی الحال ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات میں البتہ تعلیم کے شعبے میں بھی ٹیکس متعارف کرایا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سروسز و مصنوعات پر پانچ فیصد ٹیکس کا اطلاق یکم جنوری سن 2018 سے شروع ہو رہا ہے۔ اطلاع ہے کہ دیگر خلیجی ممالک بھی آئندہ برسوں میں اپنی اپنی ٹیکس اسکیموں کا اعلان کرنے والے ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں متعارف کرائے جانے والے ٹیکس کا اگر یورپی ریاستوں سے موازنہ کیا جائے، تویہ شرح کافی کم ہے۔ بیشتر یورپی ملکوں میں VAT بیس فیصد لیا جاتا ہے۔ اس بارے میں ابو ظہبی کے ایک اخبار نیشنل نیوز پیپر مبں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس پیش رفت کے بعد متحدہ عرب امارات میں زندگی گزارنے کے اخراجات میں اوسطاً ڈھائی فیصد کا اضافہ ہو گا۔ تنخواہیں البتہ وہی رہیں گی۔ در اصل حکومت تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے ملکی آمدنی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ قدم اٹھا رہی ہے۔ ٹیکس سے متحدہ عرب امارات کی حکومت بارہ بلین درہم یعنی لگ بھگ 3.3 بلین ڈالر اکھٹے کرنا چاہتی ہے۔ دریں اثناء ریاض حکومت نے حال ہی میں اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بجٹ کا اعلان کیا۔ حکومت آئندہ برس 978 بلین ریال ?ا 261 بلین ڈالر خرچ کرنا چاہتی ہے اور اس میں ٹیکس سے حاصل کردہ اضافی آمدنی بھی شامل ہو گی۔ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناظر میں عالمی مالیاتی فنڈ نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کو یہ تجوبز دی تھی کہ وہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے ’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ متعارف کرائیں۔ آئی ایم ایف کے مشرق وسطیٰ کے لیے ڈائریکٹر جہاد آزور کے مطابق ٹیکس متعارف کرانے سے طویل الملدتی بنیادوں پر ان ممالک کا تیل کی آمدنی پر انحصار کم ہو گا۔