سالار قوم بھٹکل؛محی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔از:سید محمد زبیر مارکیٹ
جناب محی الدین منیری مرحوم سے بھٹکل کا کون شخص واقف نہیں ہے ہندوستان کے مشاہیر شخصیات کی صفوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے منیری کی شخصیت ہر دلعزیز تھی بااثر تھے ایک سراپا متحرک اور فعال شخصیت کا نام منیری تھا شاید انھیں چین سے بیٹھنا ہی نہیں آتا تھا بجلی کی طرح وہ اپنے اندر تڑپ رکھتے تھے۔
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جاکہ بجلی گرتے گرتے آپ خود ہی بے زار ہو جائے۔آپ مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی کے داماد ہیں جو خود بھی صاحب علم و فضل تھے 1918 میں آپ کی پیدائش ہوئی ۔آپ جامعہ اسلامیہ کے پہلے استاد اور مہتمم مولانا عبدالحمید ندوی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے جو اس زمانہ میں انجمن کے استاد تھے مولانا عبدالحمید ندوی ایک اچھے استاد کے علاوہ بہترین مربی بھی تھے محی الدین منیری مرحوم اوائل طالب علمی سے بہت ذہین اور متحرک رہتے تھے ایک مرتبہ عبدالحمید ندوی نے طلبہ کے سامنے علامہ اقبال کا ایک شعر
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
لکھ کر اس کی وضاحت کے لئے کہا اور ان کو اس کا مطلب بتانے کچھ دنوں کی مہلت بھی دی جناب محی الدین منیری مرحوم نے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کو یہ شعر بھیج کر اس کی تشریح چاہی۔
مولانا مودودی نے اسی لفافہ پر اس کی تشریح لکھ کر بھیج دی مولانا عبدالحمید ندوی نے اس خوشی میں اپنے شاگردوں کو مٹھائی کھلائے بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ مولانا مودودی سے خط و کتابت ہوئی تھی۔انجمن کے میٹرک کا جو پہلا بیچ نکلا تھا اس میں منیری صاحب بھی تھے۔
بمبئی میں قیام جامعہ کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کمیٹی کا کنوینر محی الدین منیری صاحب کو بنایا گیا تھا گرچہ آپ کا شمار جامعہ کے تحریک کرنے والوں میں شامل نہیں ہے لیکن یہ بات بھی بتائی جاتی ہے کہ اس کا تخیل ایک منصوبہ بند انداز میں پہلے سے موجود تھا آپ جب ناظم جامعہ بن گئے جامعہ کو شہرت کی بام تک پہنچایا چونکہ اکابرین ملت اسلامیہ سے آپ کے قریبی روابط تھے ان سے بھی خط و کتابت ہوتی رہتی تھی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو پہلی مرتبہ بھٹکل میں آپ نے مدعو کیا مولانا سے قریبی تعلقات کی وجہ سے ندوہ سے اس ادارہ کا الحاق کرائے آپ جناب جوکاکو حافظکا سابق سفیر ھند سعودیہ عربیہ کے توسط سے حج کمیٹی میں شامل ہونے صابو صدیق مسافر خانہ میں ہندوستان کے دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کی خدمت کو اپنی حرز جان بنائے رکھا آپ مکہ مکرمہ میں تیز دھوپ میں حاجیوں کی خدمت کرتے تھے ایک مرتبہ اس نوجوان کو شاہ فیصل جو اس وقت ولیعہد تھے دیکھا برف کی سل سر پر اٹھائے جارہے ہیں تو شاہ فیصل نے آپ سے ملاقات کے بعد حاجیوں کے لئے برف کا بڑا آرڈر دیا۔
مولانا اطہر مبارک پوری نے البلاغ میں آپ کو مدیر مسئول بنایا آپ بڑے پرجوش مقرر بھی تھے کام کرنے کے علاوہ آپ کام لینا جانتے تھے لوگوں کی صلاحیتوں سے جب واقف ہوجاتے ان سے اسی طرح کام لیتے گھنٹوں اپنے رفقاء کو لیکر اپنے گھر میں لے کر بیٹھ جاتے آپ آئی ایچ صدیق کے شاگرد تھے بزرگان دین سے آپ کے تعلقات رہے ہیں ان کی صحبت میں بیٹھتے تھے مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا شیخ الحدیث زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے ارادتمندوں میں شامل تھے۔
جب کوئی کام ہوتا تو سر پر کام اس طرح سوار ہوجاتا کہ آپ کو کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا تھا کام کرنے کا ایک جنون سوار رہتا تھا مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم کو بھٹکل سے آپ ہی نے روشناس کرایا اس کے علاوہ مولانا قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند مرحوم کو جامعات الصالحات کی نئ بلڈنگ کے افتتاح کے موقع پر دعوت دی تھی اس سے پہلے 1952 میں مولانا قاری طیب صاحب بھٹکل میں جناب قاضیا محمد حسن( والد قاضیا محمد ابراہیم )کی دعوت پر تشریف لائے تھے فرحت منزل نام آپ نے ہی تجویز کیا تھا جامعات الصالحات کو قائم کرکے قوم کی بیٹیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا اور آج ہزاروں ملت کی بیٹیاں اس ادارہ سے فارغ ہو چکی ہیں۔
جامعة الصالحات 1982 میں قائم ہوئی مولانا قاری طیب صاحب کے بدست اس کا افتتاح ہوا اس موقع پر صدق جدید کے ایڈیٹر حکیم عبدالقوی تشریف لائے تھے اور مولانا ہاشم فرنگی محلی بھی تھے ان دونوں شخصیات کے ساتھ لکھنؤ سے میں رفیق سفر رہا۔آپ قوم کے ہر اداروں سے وابستہ رہے ہیں لیڈر شب آپ کو فطرت میں ہی ملی تھی انجمن ہو یا تنظیم ان اداروں کو بھی خون جگر سے آراستہ کیا۔حافظکا کی تجویز تھی آپ کو انجمن کا آنریری سکریٹری مقرر کیا جائے مگر اس سلسلے میں بات آگے بڑھ نہیں پائی تو ا انجمن کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا ویسے بعد کے ادوار میں نائب صدر کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم منیری کی مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کو قبولیت عطا فرمائے۔