ساگر(شیموگہ):10؍ جنوری(ایس اؤ نیوز ) پچھلے چارمہینوں سے ایک مسلم لڑکی کو ہراساں کئے جانے سے غصہ میں آئے بھائی نے بجرنگ دل کے لیڈر سنیل پر ہتھیاروں سے حملہ کئےجانے کا واقعہ ساگر شہر میں پیش آیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق جب سنیل اپنی بائک کے ذریعے ساگر کے بی ایچ روڈ سے گزر رہاتھاتواسی دوران سمیر اور اس کے دو ساتھیوں نے حملہ کی کوشش کی۔ البتہ سنیل عین موقع پر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ البتہ شیموگہ ضلع ایس پی متھن کمار نے بتایاکہ معاملے کو لےکر تین ملزموں کو گرفتارکیاگیاہے۔اخبارنویسوں سےبات کرتےہوئے ایس پی متھن کمار نے بتایا کہ حملہ ذاتی وجوہات کی بنا پر ہوا ہے۔ شکایت کردہ سنیل گذشتہ چارمہینوں سے ملزم کی بہن کے ساتھ چھیڑ خوانی کررہاتھا۔سمیر نے سنیل کو راست طورپر دو تین مرتبہ بتایا بھی تھا کہ اس کی بہن کوہراساں کرنا بند کرے۔
ایس پی نے بتایا کہ جب ہم نے کال ریکارڈ کی جانچ کی تو پتہ چلا کہ سنیل، سمیر سےبات کرتےہوئے اس کی بہن کانمبر پوچھ رہاتھا۔ سمیر نے جب اسے سمجھانے کی کوشش کی تو سنیل نے اس کی باتوں کی پرواہ نہیں کی۔ کل پیر کو بھی یہی معاملہ پیش آیا تو سمیر نے جو بکریاں چراتاہے اور اس کے پاس گھاس کاٹنے والی چھری رہتی ہے ، نے سنیل پر اسی چھری سے حملہ کرنےکی کوشش کی۔ ایس پی نے بتایا کہ سمیر کو چاہئے تھا کہ وہ معاملے کو لے کر پولس کو اطلاع دیتا، لیکن اس نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ۔
ملزم سمیر کی بہن نے پریس کانفرنس میں بات کرتےہوئے بتایا کہ ہمارے شہر ساگر میں حجاب ہنگامہ کے بعد جھگڑا ہواتھا۔ میں جب کالج جاتی تھی تو سنیل نامی فرد ہمارا پیچھا کرتےہوئے حجاب نکالنے اور برقعہ نکالنے کا دباؤ بناتا تھا، پھر مذہب تبدیل کرنے کے لئے کہتے ہوئے ہراساں کرتاتھا۔ تو میں نے واقعہ کو گھر والوں کے سامنے بیان کیا۔ اسی لئے ہمارے بڑے بھائی نے سنیل کوصرف ڈرانے کےلئے ایسا کیاہوگا۔ وہ اس کے قتل کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ سمیر کی بہن نے پولس سے درخواست کی کہ وہ سمیر کو رہا کرے۔
ان سب کے دوران بجرنگ دل کارکن پر حملہ کی کوشش کی مذمت کرتےہوئے سنگھ پریوار والوں نے ساگر بند کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ساگر حلقہ کے بی جےپی رکن اسمبلی ہرتال ہالپا نے سنیل کے گھر جاکر اس سے ملاقات کی۔ پتہ چلا ہے کہ کچھ جگہوں پر خود سےدکانیں بند تھیں تو چند مقامات پر دکانداروں نے دکانیں بند کرنے سے انکار کیاتو بجرنگ دل والوں نے زبردستی دکانیں بند کرانےکی کوشش کی جس کے دوران بعض مقامات پر زبانی جھڑپیں ہوئیں۔ بعد میں پولس کی مداخلت کے بعد حالات معمول پر لوٹ گئے۔