مرکز اقتدار اور ودھان سودھا اور اراکین اسمبلی اپنا وقار کھونے لگے ہیں،اسمبلی کو جائے احتجاج کی بجائے مسائل پر سنجیدہ بحث کا مرکز بنانا ضروری: سدارامیا
بنگلورو،19/جنوری (ایس او نیوز) سابق وزیراعلیٰ سدارامیا نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ریاستی اسمبلی اور مرکزی اقتدار ودھان سودھا سے ٹیکس کی شکل میں کروڑوں روپئے ادا کرنے والے عوام عام سہولتوں کی فراہمی اور اسمبلی میں ان کے مسائل کے حل کی امید کرتے ہیں - یہ اسمبلی اب صرف دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کا مرکز بن کر رہ گئی ہے جو جمہوری نظام حکومت کے لئے آنے والے دنوں میں بہت بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے- بزرگ کنڑا صحافی ایس چندر شیکھر راؤ عرف ساچا کی تحریر کردہ کتاب یاد میں مٹ جانے سے پہلے (نیناپوما سوامنا) کی رسم اجرا کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے سدارامیا نے کہا کہ ریاستی بجٹ کا تخمینہ تقریباً 2.34لاکھ کروڑ ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے اسمبلی میں بجٹ کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کئے بغیر ہنگامہ آرائی کے درمیان ہم ریاست کے کروڑوں کے بجٹ کو منظوری دینے لگے ہیں جو جمہوری طریقہ نہیں ہے- نتیجہ میں لوگوں کو ان کا حق حاصل کرنے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے- بجٹ کے ذریعہ ریاستی حکومت مختلف محکموں کے لئے کروڑوں کی رقم کا اعلان کرتی ہے- ان حالات میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسمبلی اجلاس میں بجٹ سیشن کے دوران ہر محکمہ کے لئے منظور کی جانے والی رقم نئے منصوبوں پر اور جو منصوبے رد کئے جاتے ہیں ان پربحث کی جائے، اس سے ہونے والے موثر اور نقصانات کا جائزہ لے کر بجٹ کو منظور کرنا پڑتا ہے- افسوس اس بات کا ہے کہ اسمبلی میں گزشتہ چند برسوں سے اس پربحث نہیں ہوئی، شور شرابہ ہنگامہ، دھرنے کے دوران بجٹ منظور کردیا جاتا ہے- ان وجوہات کی بنا پر ہر گزرتے سال کے ساتھ اسمبلی کی کارروائیوں کا معیار بھی گھٹتا جارہا ہے- سدارامیا نے مزید کہا کہ 1970 اور 1980 کی دہائی میں جب اسمبلی کے بجٹ سیشن کا اعلان ہوتا تھا تو عوام کی توجہ بھی بجٹ سیشن پر رہتی تھی کہ وہاں کس طرح کے منصوبے منظور کئے جارہے ہیں کس لئے چند منصوبوں کی مخالفت کی جارہی ہے-اس سے عوام کو کیا فائدہ اور نقصان ہونے والا ہے- اس دور میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اے کے سییا جو ایک وکیل بھی تھے وہ ایوان میں ہر شعبہ کے بجٹ پر جس طرح سوالات اٹھاتے تھے میڈیا کے ذریعہ انہیں سب سے زیادہ اخبارات میں جگہ دی جاتی تھی اور وہ ”سدھی سبیا“ خبر دینے والے سییا کے نام سے ہی مشہور ہوگئے تھے- کونسل یا اسمبلی میں جب اے کے سییا کسی معاملہ کو لے کر بحث کرنے لگتے تو برسراقتدار پارٹی کے وزراء اور سرکاری افسروں کے پسینے چھوٹنے لگتے تھے- لیکن افسوس کے حالیہ چند برسوں سے اسمبلی میں ہمیں ایسی سلجھی بحث و مباحثہ دیکھنے کو نہیں ملتا اور نہ ہی کسی مسئلہ پر سنجیدہ بحث کا موقع ملتا ہے اراکین اسمبلی اور حکومت کے وزراء نے اس لئے یہ فیصلہ لیا تھا کہ سالانہ کم از کم 60 دنوں کے لئے اسمبلی کی کارروائی چلانی لازمی ہے- لیکن آج اس فیصلہ پر عمل نہیں ہورہا ہے- اور جمہوری نظام میں یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے- عوام کو اسمبلی سے جو امیدیں رہتی ہیں وہ پوری نہیں ہوپارہی ہیں اور مایوسی چھانے لگی ہے-سدارمیا نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر ہم اسکول کالج کے طلبہ سے یہ سوال کریں گے کہ اسمبلی اور کونسل کیا ہے تو شاید ان کا یہی جواب ہوگا کہ یہ ودھان سودھا کا وہ ہال ہے جہاں پیپر اور نوٹس پھاڑے جاتے ہیں اچھالے جاتے ہیں - دھرنا دیا جاتا ہے اور بار بار سارے لوگ اٹھ کر باہر چلے جاتے ہیں - سدارامیا نے صحافی ساچا کی تحریر کردہ کتاب کے حوالے سے کہا کہ اس میں کئی ایسے واقعات ہیں جو سیاست دانوں کی آنکھیں کھولنے اور ان کی رہنمائی کے لئے کافی ہیں - ساچا کی اس کتاب میں انہوں نے جن واقعات کو قلمبند کیا ان کے ذریعہ ماضی میں ہماری ریاست میں یکجہتی، پیار محبت، خلوص، ادب، ذمہ داری کاجو احساس اور سیاسی بصیرت اس وقت کے سیاست دانوں اور عوام لوگوں میں تھی اس کی منظر کشی کر کے سماجی انقلاب لانے کی کوشش کی ہے- صدر جلسہ مکھیہ منتری چند رونے اپنے خطاب میں کہا کہ آج پورے ملک میں این آر سی اور سی اے اے ہی موضوع بحث ہے- لیکن ان موضوعات پر بحث کے لئے ضروری نکات کے تعلق سے کئی دہائیوں قبل ہی ہمارے بزرگوں نے اور سیاست دانوں نے اس پر واضح نکات پیش کئے ہیں صحافی چندر شیکھر ساچا نے اپنی صحافتی زندگی کے کئی اہم اور یادگار واقعات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ دیہاتوں میں شہروں میں پہلے جو ماحول اور سکیولر جذبات دیکھنے کو ملتے تھے وہ موجودہ سیاست دانوں اور ہندوستان میں اب نایاب ہوتے جارہے ہیں اس ماحول کوبدلنے اور بھارت کو ایک سکیولر بھارت بنانے کا عزم کرنا ضروری ہے- اس پروگرام میں وظیفہ یاب پرنسپل منجوناتھ نرسمہا پر ساد وغیرہ نے بھی خطاب کیا-