ثانی نہیں ہے تیرا.......بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خان رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔۔از:  حافظؔ کرناٹکی

Source: S.O. News Service | Published on 1st June 2021, 1:00 PM | اسپیشل رپورٹس |

    بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ کے انتقال پر ملال سے نہ صرف یہ کہ ان کی حقیقی اولاد شفقت پدری سے محروم ہوئی ہے، اور یتیمی کا داغ برداشت کر رہی ہے بلکہ سچ پوچھیے تو الامین سے تعلق رکھنے والے سارے لوگ آج اپنے آپ کو شفقت پدری سے محروم محسوس کررہے ہیں اور یتیمی کادرد برداشت کررہے ہیں۔ ان کی شخصیت ابرباراں کی طرح تھی۔ جو ان زمینوں پر بھی برستی تھی جن کے بارے میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بنجر ہو چکی ہے۔ یہ ان کی شخصیت اور ان کے خلوص کا جادو تھا کہ وہ علم بنجر زمینوں پر بھی تعلیم و تعلم کا باغ لگادیتے تھے وہ بھی ایسا باغ جس کی بہاریں دیکھ کر لوگوں کے دماغ روشن اور روح معطر ہوجاتی تھی۔ ان کے دل میں قوم و ملّت کی خدمت اور درد مندی کی ایسی ایسی موجیں لہریں لیتی تھی، جو سنگلاخ کناروں کو کاٹ کر علم کا دریا بہادیتی تھی۔ اجاڑ اور ویران علاقوں کو گل گلزار اور علم و عمل کا دلکش سنسار بنادیتی تھی۔ ان کے عزم وارادے کے آگے حالات آپ ہی اپنا رخ بدل لیتے تھے۔ڈاکٹر ممتاز احمد خان صرف ایک ہر دل عزیز شخص یا جامع کمالات شخصیت ہی کا نام نہیں تھا۔ بلکہ ایک تعلیمی انقلاب ایک صالح فکر، صحت مند نظریے، ایک عملی فلسفے اور ایک زندہ جاوید تحریک کا نام تھا۔

    ان کے کام کرنے کی دھن، اور قوم و ملّت کی تعمیر نواور تعلیمی تشکیل جدید میں خود کو فناکردینے کے جذبے نے زندگی کے ناہموار راستوں پر چلنے والے ان تمام مسافروں کو کائنات کے ذرے ذرے میں دھڑکتے ہوئے الوہی دل کے نغمہئ جانفزا سے آشناکر دیا جس میں فکر و آگہی، علم و عمل اور تعلیم و تعلم کے غنچوں کے چٹکنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ عزم ارادے کے آہنی حوصلوں کا ترانہ سنائی دیتا ہے۔ اور آنیوالی مہذب، اور تعلیم کی روشنی سے منورزندگی کی بشارت کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ بات بغیر کسی تکلف اور جھجھک کے کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے بیسویں صدی کے پسماندہ اور علم کی اہمیت سے ناشناس مسلم قوم کو اکیسویں صدی کے علم وآگہی اور سائنس و ٹکنالوجی کے روشن آفتاب کا سامنا کرنے کے قابل بنادیا۔

    اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں اپنی علمی لیاقت اور قابلیت کی بناپر کوئی بڑا کام نہیں کرپاتے ہیں، وہ لوگ قوم و ملت کے خدمت گار بن جاتے ہیں۔ اور اپنے حالی و موالی کے ساتھ قوم و ملت کا جذباتی استحصال کرنے کے لیے فلاحی اور علمی کاموں کا پرچم لے کر میدان میں آجاتے ہیں، اور دھواں دھار تقریریں کرکے اپنی عیش کوشی کا سامان حاصل کر کے قوم و ملت کو حیران و پریشان چھوڑ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ایمانداری سے خدمت کرنے والے لوگوں پر بھی قوم و ملت جلد بھروسہ نہیں کرپاتی ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان صاحب کی شخصیت ان تمام عیوب سے پاک تھی۔ میں بچپن سے انہیں جانتا تھا۔ ان کا اخبار روز نامہ سالار بچپن سے پڑھتا رہا تھا۔ ان کی تقریریں اور تحریریں ذوق و شوق سے سنتا اور پڑھتا رہا تھا۔ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ وہ جو کچھ کہتے تھے کردکھاتے تھے۔ وہ گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے۔ وہ کہنے سننے سے زیادہ کردکھانے پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اتنے سارے اسکول و کالج بنائے۔اور ہر طرح کامیاب رہے۔ ان کا ادارہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کے اسکول اور کالج مسلم قوم کے خوابوں کی تعبیر یں پیش کررہے ہیں۔ ایسے اقلیتی ادارے جہاں مسلمان بچوں اور بچیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش ہو برائے نام تھے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ نے مسلمانوں کے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ اور اپنے حوصلے، ہمت، اور آہنی عزم وارادے سے ثابت کردیا کہ اگر آدمی کے اندر سچا جذبہ ہو، دل میں خلوص ہو، اور اللہ کی مدد و نصرت پر کامل یقین ہو تو بڑے سے بڑا خواب بھی شرمندہئ تعبیر ہو سکتا ہے۔

    کیا بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ صاحب سے پہلے ہندوستان کے مسلمان اور باالخصوص کرناٹک کے مسلمان یہ سوچ سکتے تھے کہ ان کا اپنا میڈیکل کالج ہوگا۔ جہاں ڈی فارما، بی فارما، اکیولوجی، فارماسیوٹکس، فارماکیمیسٹری، فارمامارکٹنگ اینڈ منیجمنٹ اور فارماپریکٹس کی تعلیم دی جاسکے گی۔ اپنا انجینیرنگ کالج ہوگا، جس میں ٹیکنیکل، میکنیکل، سول الکٹرونیکل، الیکٹرونس، کمپیوٹر سائنس، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کورسیز کامیابی سے کرائے جائیں گے۔ خواتین کے لیے اپنا پولیٹکنک کالج ہوگا جس میں کمپیوٹر سائنس ٹیلی کمیونیکیشن، فیشن ڈیزائننگ، ڈیکوریشن اور سول انجینرنگ کے کورسیزنہایت کامیابیسے اسلامی ماحول میں چلیں گے۔ اپنا لا(قانون) کالج ہوگا اپنا کالج آف ایجوکیشن ہوگا۔ اپنا انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ اسٹڈیزہوگا۔ جہاں ایم بی اے، اور بی بی ایم کی تعلیم دی جائے گی۔ اپنا کالج آف آرٹس سائنس اور کامرس ہوگا جہاں پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر ایم ایس سی مائیکرولوجی، ایم ایس سی آرکی ٹک کیمسٹری، ایم ایس سی بایوٹیکنالوجی اور ایم سی اے وغیرہ کی تعلیمات مہارت سے دی جاسکے گی۔ اور اس کے علاوہ بھی اس طرح کے درجنوں ادارے اور کالج قائم ہوں گے، جہاں مسلم بچے اور بچیاں عصری علوم سے فیضیاب ہو کر زندگی اور تعلیم کے بنیادی دھارے سے جڑ کر اپنی قوم کا نام روشن کریں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے کے سارے وہ خواب تھے جسے ہم دیکھ تو سکتے تھے مگر اسے سچ کردکھانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ یہ اللہ کا بڑا کرم تھا کہ انہوں نے ہمارے درمیان فولادی اعصاب کے ایک ایسے انسان کو بھیج دیا جنہوں نے اپنے ارادے کی پختگی سے سارے سپنوں کو سچ کرکے دکھادیا۔

    میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خان ؒ صاحب سے ابتداہی سے ملنے اور مشورہ کرنے کے مواقع ملتے رہے، ہم بھی شکاری پور میں ایک میڈیکل کالج کھولنے کی آرزو رکھتے تھے۔ لہٰذا میں اپنی ٹیم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے پاس مشورے کے لیے حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالج کھولنے کے راستے میں اتنے پیچیدہ موڑ آتے ہیں کہ انسان ان میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں میڈیکل کالجوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ ایسا کریں کہ اپنے یہاں ہائی اسکول اورپی یو سی(PUCُٰ)کی تعلیم پر توجہ کریں بچوں کو اس طرح تیار کریں کہ وہ اپنی لیاقت، اور قابلیت سے میڈیکل سیٹ حاصل کرلے۔ ان کے مشورے ہمیشہ چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا ہم نے یہی کیا اور بفضلہ تعالیٰ کامیاب بھی ہوئے۔

    ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ صاحب کی شخصیت سچ مچ ایسی مثالی تھی جس پر کسی بھی قوم کو فخر ہو سکتا تھا۔ وہ قوم وملّت کے سچے بہی خواہ اور خدمت گار تھے۔ وہ ایک عملی انسان تھے۔ انہوں نے نام نہاد دانشوروں کی طرح اپنے سجے سجائے خوب صورت ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مسلم محلوں، گاؤں، اور شہری علاقوں میں پھیلی جہالت، غربت، اور گندگی دور کرنے کے سپنے دیکھنے اور دکھانے کے بجائے میدان میں اتر کر کام کرنے کو ترجیح دی۔ وہ ریاست کے مختلف علاقوں میں گئے وہاں کی سماجی، اور معاشرتی زندگی کو قریب سے دیکھا۔ جڑپکڑکر بیٹھی جہالت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اور پھر اس کو دور کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے۔ اور انہوں نے وہ سب کچھ کردکھایا جس کی لوگ صرف آرزو ہی کرسکتے تھے۔ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ صاحب کا خاندانی پس منظر اور ان کی تعلیمی لیاقت اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ اگر ان کے اندر قوم و ملت کا درد نہیں ہوتا۔ اور وہ محض اپنی عیش پرستانہ زندگی پر توجہ کرتے تو وہ اپنے آپ کو قوم و ملت کی اصلاح و فلاح اور تعلیمی ترقی کے لیے کبھی وقف نہیں کرتے۔

    یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ صاحب کے والدین علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی کے گریجویٹ تھے۔ خود ان کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری تھی۔ گھر خاندان میں خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ زندگی کی خوشیاں ان کے آس پاس رقص کرتی تھیں وہ چاہتے تو انہیں خوشیوں میں مگن ہو کر رہ جاتے۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا؟ ان کے والدین جو علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی کے فارغین تھے ان کے اندر سرسید احمد خان کے حقیقی جذبے کی روح سرایت کرچکی تھی۔ ان کی تربیت سے یہی روح بابائے تعلیم کے جسم و جان میں جذب ہو گئی۔ پھر قدرت نے انہیں علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی کا پرووائس چانسلر بن کر اسے قریب سے دیکھنے اور اس کے رمز کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا اس طرح ان کی شخصیت یکسر بدل گئی۔ گویا بابائے تعلیم کی شکل میں عزم سرسید کا نیا ظہورہوا۔ اور پھر ایک نئے تعلیمی دور کا آغاز ہوا جو الامین ایجوکیشن تحریک کے نام سے پہچانی گئی۔ 

    ڈاکٹر صاحب موصوف ان لوگوں میں سے تھے جو صرف یہی نہیں جانتے ہیں کہ وہ کیا کرسکتے ہیں بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا نہیں کرسکتے ہیں۔ میں نے ان کا البم دیکھا ہے۔ ہندوستان اور باالخصوص ریاست کرناٹک کا کوئی ایسا بڑاسیاسی لیڈر نہیں جن کے ساتھ ان کی تصویریں نہیں ہیں۔ ان کا رشتہ اپنے وقت کے ہر سیاسی لیڈر سے بہت ہی دوستانہ رہا ہے۔ بعض لیڈروں نے تو انہیں سیاست میں آنے کے اشارے بھی کیے مگر انہوں نے کسی بات پر توجہ نہیں دی۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ ایم ایل اے، ایم پی، ایم ایل سی، یا راجیہ سبھا یا لوک سبھا کے ممبر بہت آسانی سے بن سکتے ہیں۔ مگر وہ سیاست کی مکروہات میں اپنے آپ کو زندہ جاوید نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے وہ راستہ چنا جو مشکلوں بھراتھا۔ جو براہ راست قوم و ملت کے دل تک جاتاتھا۔ اسی لیے آج وہ قوم و ملت کے سینے میں دل بن کر دھڑک رہے ہیں۔

    الامین تحریک ہندوستان کے مسلمانوں اور بطور خاص ریاست کرناٹک کے مسلمانوں کی تعلیمی تحریک کا زندہ اور روشن استعارہ ہے۔ چوں کہ بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ صاحب نے دعائے نیم شبی سے کام لے کر اپنی قوم کو دل کی گہرائی سے پکارا تھا اس لیے ان کی آواز قوم و ملت کے لوگوں کے دلوں میں اترگئی۔ لوگ ایک ایک کرکے آتے رہے اور کارواں بنتا چلا گیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ کارواں تعلیم و تعلم کی روشن مشعل لے کر زندگی کی شاہراہوں پر خود اعتمادی سے چل پڑا۔ اس مشعل کی روشنی نے جہالت کے اندھیرے کو دور کردیا۔ بے حوصلہ قوم میں نئی امنگ پیدا کردی۔ اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھادیا۔ اور ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ صاحب کے اس خواب کوپورا کردیا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ وہ ایک ایسا ادارہ قائم کریں گے جس میں قوم و ملت کے ٹھکرائے بچوں کو شفقت کے ساتھ تعلیم دی جائے گی۔

    چوں کہ بابائے قوم علم کی ایک نئی تحریک کے ساتھ اٹھے تھے اس لیے ان کے کاموں اور کارناموں کی وجہ سے جدید تعلیم کی روشنی شہر سے گاؤں تک اور محل سے جھونپڑی تک پہونچ گئی۔ڈاکٹر صاحب کی بے لوث قومی اور ملکی و ملّی اور تعلیمی خدمات کو اللہ نے قبول فرمالیا۔ اس لیے انہیں ہردور میں بہترین رفیق اور دوست ملتے رہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے رفیقوں میں سے جن کو قریب سے دیکھا ہے اور متأثر ہوا ہوں ان میں الامین رتناڈاکٹر سبحان شریف صاحب کی شخصیت سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ڈاکٹر سبحان شریف صاحب کی خدمات پر توجہ کریں تو یقین نہیں آئے گا کہ وہ اتنے سارے کاموں کو بہ یک وقت کس طرح انجام دیتے ہیں۔ وہ بھی اس کامیابی اور سلیقہ مندی سے کہ لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سبحان شریف صاحب کی وجہ سے بابائے تعلیم کو بہت تقویت ملی۔ بابائے تعلیم جو بھی خواب دیکھتے تھے، جس کام کی بھی خواہش کرتے تھے۔ جیسا بھی خاکہ بناتے تھے، ان سبھوں میں رنگ بھرنے کا جوکھم بھرا کارنامہ الامین رتنا ڈاکٹر سبحان شریف صاحب انجام دیتے تھے اور دے رہے ہیں۔ وہ ایسے باکمال شخصیت کے مالک ہیں کہ ان کے قدموں کی آہٹ سے راستے کی ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ ان کے عزم و ارادے کے سامنے مسائل کے پہاڑ پگھل کر رہ جاتے ہیں۔ انہیں بابائے تعلیم سے جو محبت تھی اور بابائے تعلیم کو ان پر جو اعتماد تھا دونوں کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ڈاکٹر سبحان شریف صاحب کی بے لوث خدمت، کام کرنے کی دھن، مشکلوں کو آسان بنانے کی صلاحیت راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی خوبی، الامین تحریک سے بے پایاں محبت کو دیکھ کر ہی بابائے تعلیم نے انہیں الامین کا رتن قرار دیا تھا۔ اور انہیں الامین رتنا اعزاز والقاب سے نوازکران کی خدمات کے اعتراف کی مثال قائم کی تھی۔ اگر میں یہ کہوں کہ آج ریاست کرناٹک میں جدید تعلیم و تعلم کے اداروں کا جو جال بچھاہوا ہے۔ ان سب کی رگوں میں بابائے تعلیم کے کام کرنے کے جذبے اور سلیقے اور ان کے عزم و ارادے کا جوش لہوبن کر دوڑ رہا ہے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ انہیں کے اقدام سے یہ مشکل راہ ہموار ہوئی۔ جس پر چل کر بہت سارے لوگوں نے بابائے تعلیم کے خوابوں میں رنگ بھرنے کا کام کیا۔

    بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خانؒ صاحب سچ مچ ایسے ڈاکٹر تھے جو قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی تمام خوبیوں اور خرابیوں کو جان لیتے تھے۔اور اس کے احوال کے مطابق نہایت مؤثر علاج تجویز کرتے تھے۔ ایسے عبقری، دانشور، اور نابغہ مفکر تعلیم کسی بھی ملک اور قوم میں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم تمام لوگ بابائے تعلیم کے خون جگر سے سینچے ان کے اداروں، اور ان کے نہایت کامیاب تحریک الامین تحریک کی ہم دل و جان سے حفاظت کریں۔ اس کی بنیادوں کو مضبوط کریں۔ الامین ایجوکیشنل سوسائیٹی کو ہر پل جوان و تندرست رکھنے میں اپنا کردار اداکریں۔ تا کہ کل ہم اپنی قوم اور آنیوالی نسلوں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔

    بابائے تعلیم کی جدائی کا غم بے پایاں ہے۔ ہم ابھی اس غم سے باہر نہیں آسکے ہیں اور شاید کبھی نہیں آسکیں گے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ  ہمیں بابائے تعلیم کے خوابوں، اور ان کے خوابوں کی تعبیروں کے ساتھ عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی طاقت و قوّت عطا کرے۔ آمین

ایک نظر اس پر بھی

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...