رجا راجیشوری نگر اور سرا کے نتائج؛ کرناٹک کی تینوں سیاسی جماعتوں کے لئے سبق ۔۔۔۔ خصوصی تجزیہ : ناہید عطاء اللہ
کرناٹک کے دو اسمبلی حلقوں سرا اور راجا رجیشوری نگرا اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات کے نتائج نے کرناٹک کی تینوں اہم سیاسی جماعتوں کو سبق سکھایا ہے کہ ہر اسمبلی حلقوں میں عوام کو ایسے امیدوار کی ضرورت ہے جو ان سے قریب رہ کر کام کرسکتا ہے۔
حالانکہ حکمران بی جے پی نے دونوں سیٹوں پر قبضۃ جمالیا لیکن اس کے ساتھ تمام پارٹیوں کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی پارٹی چاہے جتنی بھی مقبول ہو امیدوار کا علاقے کے لوگوں میں مقبول ہونا ضروری ہے۔
ان دونوں اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخاب سے ایڈی یورپا کی قیادت والی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ دسمبر 2019 کے دوران ہوئے ضمنی انتخابات کے دوران ہی انہوں نے اپنی اقلیتی حکموت کو اکثریت دلا دی تھی اس لئے ان کے استحکام پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ہے لیکن اگر یہ نتائج بی جے پی کے لئے اگر برعکس آتے تو شاید کرناٹک میں حکومت نے کورونا وائرس کی وبا سے پیدا شدہ صورتحال کو جس طریقے سے نپٹا اس پر سوال کھڑے ہوسکتے تھے۔
سرا اسمبلی حلقہ کیلئے کانگریس کے انچارج سابق نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر پرمیشور کا کہنا ہے کہ بی جے بی یہ کامیابی عوام کی نہیں ہے بلکہ پیسے اور اقتدار کی ہے۔ ممکن ہے کہ عوام کا ایک طبقہ اس کے زیر اثر آگیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ سوشیل میڈیا پر دونوں اسمبلی حلقوں میں بی جے پی طرف سے کھلے عام پیسے تقسیم کرنے کے ثبوت موجود ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے جانب داری دکھاتے ہوئے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
کانگریس کو آر آر نگر میں 57936 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کانگریس چھوڑ کر بی جے پی شامل ہونے والے منی رتنا نے اس حلقہ میں تیسری بار اپنی سیٹ حاصل کی ہے۔ لیکن اس حلقہ میں کانگریس کی شکست کے پی پی سی صدر ڈی کے شیوکمار اور ان کے بھائی رکن پارلیمان ڈی کے سیریش کے لئے ایک زبردست دھکا ہے۔
رجا راجیشوری نگر حلقہ میں کانگریس امیدوار کے طور پر کسما روی کو خود ڈی کے شیوکمار نے میدان میں اتارا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران شیوکمار نے عوام سے کہا تھا کہ وہ کسما کو نہیں بلکہ انہیں امیدوار سمجھ کر ووٹ دیں۔ انتخابی تنظیمی اموار میں اپنی مہارت کے لئے کانگریس اعلیٰ کمان کی سطح پر مانے جاتے ہیں اس بار ان کو کامیابی نہیں مل پائی۔ حالانکہ وہ کرناٹک میں پارٹی کی قیادت کررہے ہیں۔
پارٹی شکست پر انہوں نے کہا کہ انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ کانگریس امیدوار کی شکست اس قدر بھاری فرق سے ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ جس وقت سرا اسمبلی حلقہ سے کانگریس نے پرانے چہرے ٹی بی جئے چندرا کو ٹکٹ دیا اسی وقت کرناٹک میں اے آئی سی سی کے انچارج رندیپ سرجے والا نے اشارہ دیا تھا کہ اس سے پارٹی کو جو کھم ہوسکتا ہے۔
سرا میں کانگریس کی انتخابی مہم کے انچارج ایس آر مہروز خان نے کہا کہ کانگریس پارٹی کی طرف سے مہم میں کوئی کمی نہیں رہی لیکن بدقسمتی سے سرکاری مشینری کے غلط استعمال اور پیسے کی طاقت کا استعمال کر کے بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کو خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے سرا میں تین دہائیوں کی کوشش کے بعد آخر کار اپنا کھاتہ کھول دیا۔
ایڈی یورپا کے فرزند بی وائی وجیندرا نے اس حلقہ میں انتخابی مہم کی کمان خود سنبھالی اور کے آر پیٹ اسمبلی حلقہ میں اپنائی گئی حکمت عملی اپنا کر سرا میں بھی اسے موثر بنایا ۔ آر آر نگر میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے انچارج ریاستی وزیر آر اشوک نے بتایا کہ اس حلقہ کا نتیجہ ان کے لئے وقار کا مسئلہ تھا۔ کیونکہ اس حلقہ کی وہ پہلے بھی نمائندگی اتر ہلی حلقہ کے رکن اسمبلی کے طور پر کرچکے ہیں۔
راجا رجیشوری نگر اسمبلی حلقہ کے بیشتر کانگریس کارپوریٹروں نے بی جے پی امیدوار منی رتنا کے حق میں کام کیا۔ ایسا نہیں لگتا کہ ان ضمنی انتخابات میں شسکت سے کانگریس کے حوصلے متاثر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر پرمیشور نے کہا کہ اب پارٹی مسکی اور بسواکلیان اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات پر متوجہ ہوگی۔ سرا میں انتخابی مہم کے دوران ایڈی یورپا نے کہا تھا کہ سرا اسمبلی حلقہ میں اگر بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو آنے والے دونوں میں ریاست کے کسی بھی حلقہ سے کامیاب ہوسکتی ہے۔