فرقہ واریت کو فروغ دینے والی تبدیل شدہ نصابی کتب کومنسوخ کرنے کا چیف منسٹر کرناٹک سے مطالبہ، گلبرگہ و بلاری میں طلبا و طالبات کا احتجاج

Source: S.O. News Service | Published on 8th June 2022, 12:38 AM | ریاستی خبریں |

گلبرگہ،7جون (ایس او نیوز؍راست) روہت چکراتیرتھ کی قیادت میں کرناٹک کے مدارس کی نصابی کتب میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ان تبدیل شدہ کتابوں کو  فوری طور پرمنسوخ کرنے اور واپس لینے کا چیف منسٹر کرناٹک  مسٹر بسواراج بومائی سے مطالبہ کرتے ہوئے گلبرگہ اور بلاری میں سینکڑوں طلبا و طالبات نے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔

 احتجاج اآل انڈیا ڈیموکریٹک اسٹوڈینٹس آرگنائیزیشن AIDSOکے تحت منظم کیاگیاتھا۔تمام طلبا و طالبات نصابی کتب میں تبدیلی کی کمیٹی اور ریاستی حکومت کے خلاف نعرے بلند کررہے تھے۔احتجاجیوں کا کہنا تھا کہ ساوتری بائی پھولے جنھوں نے خواتین اور کمزور طبقات کوتعلیم سے مستفید کروانے کے لئے زبردست جد و جہدکی تھی ان پرر مشتمل سبق نصابی کتب سے خارج کردیا گیا ہے۔اسی طرح ساتویں جماعت کی سوشئیل سائینس کی نصابی کتاب سے پرندرا  داس کا سبق نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسی نصابی کتاب میں سے مہاڑ ستیہ گرہ، ناسک مندر میں داخلہ کی تحریک جس کی قیادت ڈاکٹر باب صاحب امبیڈکر نے کی تھی، اسے اس کتاب میں سے نصاب میں تبدیلی کرنے والوں نے ڈاکٹر بابا صاحب امیبیڈکر کے نام کے آگے جو معمارر دستور ہند تحریر تھا اس لفظ معمار کو نکال دیا ہے۔اس طرح بابا صاحب کی خدمات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

دسویں جماعت کی نصابی کتاب میں سے انقلابی شخصیت وویکا نند سرسوتی اور ان کی  خدمات  اور انقلابی خیالات پر تحریر کردہ سبق بھی خارج کردیا گیا ہے۔ ترقی پسند مصنفین و قلمکاران اے این مورتی راؤ اور سارہ ابو بکر و دیگر کے اسباق بھی نکال دئے گئے ہیں۔ اس کے خلاف دائیں بازو کے نظریات شامل کردئے گئے ہیں۔ یہ انکشافات احتجاجی مظاہرہ میں شامل ایس ایچ ہنا منت نے صدر ضلعی تنظیم نے گلبرگہ میں احتجاج کے دوران کئے ہیں۔

شہر بلاری میں  قدیم بس اسٹیانڈ کے قریب بھی تبدیل شدہ نصابی کتب کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے  ڈاکٹر این پرمود قومی نائب صدر مذکورہ بالا تنظیم کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ انھوں نے الزام عائد کیا  کہ نصابی کتب کمیٹی نے نئے نصاب میں فرقہ وارانہ باتیں شامل کی ہیں۔ جن سے نوجوان طلبا و طالبات کے ذہن متاثر ہوسکتے ہیں۔ نصابی کتب میں ترمیم واضافہ کے بہانہ سے ترقی پسند اور جمہوریت کو فروغ دینے والی باتوں کو نظر اندازکردیا ہے۔ اس موقع پر پرمود نے کہا کہ چیف منسٹر کرناٹک بسواراج بومائی نے تیقن دیا ہے کہ چند درسی کتب  پر نظر ثانی کی جائیگی۔لیکن اس تیقن پر شبہ کا اظہار کرتے ہوئے تنظیم کے ضلعی سیکریٹری کامبلی منجو ناتھ نے کہا ہے کہ اس تیقن میں کوئی صاف صاف یا واضح بات شامل نہیں ہے۔ 

پوری ریاست کرناٹک میں مذکورہ بالااحتجاجی مظاہروں کے روز بہ روز نہایت طاقت ور ہونے کے بعد چیف منسٹر  بسواراج بومائی نے پھر تیقن دیا ہے کہ لینگایتوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی   قابل احترام شخصیت بسو نا پر شامل اسباق پر نظر ثانی  کی جائیگی۔ لیکن اس بات کا کوئی یقین نہیں لگتا کہ کونسی نصابی کتاب پر نظر ثانی کی جائیگی، کون نظر ثانی کرے گا، طلبا کیا پڑھیں گے اور انھیں کب کتابیں سپلائی  کی جائیں گی۔ ان سب مشکوک باتوں سے بچتے ہوئے حکومت کو چاہئے کہ وہ مذکورہ بالا تبدیل شدہ نصابی کتب کو فوری واپس لے، انھیں منسوخ کردے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ یہ سب کچھ کرنے کے بجائے جو پرانی  نصابی کتب ہیں ان کو ہی برقرار رکھا جائے 

ایک نظر اس پر بھی

بی جے پی کانگریس ایم ایل اے کو رقم کی پیشکش کر رہی ہے: وزیر اعلیٰ سدارامیا

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں پر الزام لگایا ہے کہ وہ کانگریس کے ممبران اسمبلی کو اپنی حکومت کے قیام کے بعد رقم کی پیشکش کر کے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آئین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی: سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا

جنتا دل (ایس) (جے ڈی ایس) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے منگل کو واضح کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو لوک سبھا الیکشن 2024میں 400 سیٹیں مل جائیں آئین میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی۔

بی جے پی نے کانگریس ایم ایل اے کو 50 کروڑ روپے کی پیشکش کی؛ سدارامیا کا الزام

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارامیا نے ہفتہ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ وہ کانگریس کے اراکین اسمبلی کو وفاداری تبدیل کرنے کے لیے 50 کروڑ روپے کی پیشکش کرکے 'آپریشن لوٹس' کے ذریعے انکی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں ملوث ہے۔

لوک سبھا انتخاب 2024: کرناٹک میں کانگریس کو حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے

کیا بی جے پی اس مرتبہ اپنی 2019 لوک سبھا انتخاب والی کارکردگی دہرا سکتی ہے؟ لگتا تو نہیں ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول، ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے، اور دوئم بی جے پی اندرونی لڑائی سے نبرد آزما ہے۔ اس کے مقابلے میں کانگریس زیادہ متحد اور پرعزم نظر آ رہی ہے اور اسے بھروسہ ہے ...