مینگلورو ڈپٹی کمشنر ششی کانت سینتھل کیوں ہوئے مستعفی؟ انگریزی اخبار کو دیئے گئے انٹرویوکے اقتباسات
مینگلورو، 9؍ستمبر (ایس او نیوز) ملک کے بدلتے ہوئے حالات سے بدل ہو کر جمعہ کو مستعفی ہونے والے مینگلور کے ڈپٹی کمشنر ششی کانت سینتھل نے واضح کیا ہے کہ کنن گوپی ناتھن کی طرح ان کے استعفے کی بھی ایک بڑی وجہ کشمیر میں عائد کی گئی پابندیاں ہی ہیں۔ وہ ملک میں بڑھ رہے جنونی نیشنلزم سے بھی فکر مند ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستان فسطائیت کی شدید یلغار کی زد پر ہے۔ معاصر انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز سے ہونے والی ان کی گفتگو کو معروف اُردو اخبار انقلاب نے شائع کیا ہے، جسے یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
آپ کے استعفیٰ کی اصل وجہ کیاہے؟
میں نے اپنے نوٹ میں اس کی وضاحت کی ہے کہ قومی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے اس نے مجھے سروس سے علاحدہ ہونے پر مجبور کیا ہے۔ یہ محض ریاست سے جڑا ہوا معاملہ نہیں ہے، ملک میں اس وقت جس طرح کی سیاست تھوپی جارہی ہے وہ میرے لئے بہت پریشان کن ہے۔ میرے خیال سے کشمیر میں آرٹیکل 370 ؍ کو بے اثر کیا جانا اس کا نقطہ عروج ہے ۔
کیا آپ کے ذہن میں یہ سب دھیرے دھیرے جمع ہورہا تھا؟
ہاں یہ کافی دنوں سے ذہن میں اکٹھا ہورہا تھا مجھے زمینی سطح کا کافی تجربہ ہے۔ میں کافی عرصے سے سیاسی ایجنڈے اور پیش قدمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔ میرے خیال سے یہ ملک پر فسطائیت کی یلغار ہے۔ لوگ جنونی نیشنلٹ ہوگئے ہیں۔ اب لوگ دانشورانہ مباحثوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے ۔ میں بیورو کریسی میں بیٹھا رہ کر یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتا ۔ اگر مجھے اس سلسلے میں کچھ کرنا ہے تو نو کر شاہی سے باہر آنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے میں نے استعفیٰ دیا ہے۔
تو پھر آپ نے یہ کیوں کہا کہ یہ آپ کا ذاتی فیصلہ ہے؟
حکومت کو جو کرنا ہے اور جو وہ بہتر سمجھتی ہے اُسے وہ کررہی ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ میرے مزاج سے میل نہیں کھاتا ۔ یہ اس نظریے کی روح کی بھی منافی ہے جس کے ذریعہ ہم نے اس ملک کو تعمیر کیا ہے۔ میری ذاتی قدریں اور میں نے آئین کو جس طرح سے سمجھا ہے اس سے وہ سب کچھ میل نہیں کھاتا جو اس وقت ملک میں ہورہا ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے ، ممکن ہے کہ وہ سب کچھ قانون کے مطابق ہو مگر آئین کی ایک تمہید بھی ہے، جو آئین کے مقاصد اور اس کی بنیادی قدروں کو واضح کرتا ہے۔ میں جب موجودہ جیزوں کو آئین کی بنیادی قدروں کو ملحوظ رکھ کر دیکھتا ہوں یہ دونوں میری نظر میں میل نہیں کھاتے ، اس لئے یہ میرا ذاتی معاملہ بن جاتا ہے۔
میرا یہ نظر یہ صحیح ہے یا نہیں اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ میرے نظریات جب میل نہیں کھاتے تو پھر میرے پاس دو ہی متبادل بچتے ہیں ، یا تو میں اپنا نظریہ بدل لوں یا پھر کام ۔ تو اس لئے میں نے ملازمت ترک کردی۔
اب مستقبل کے بارے میں آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟
یقینی طور پر بہت سے لوگوں اور گروپس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ اس فسطائی فریم ورک میں سب سے بڑا ایجنڈہ یہی ہوگا کہ کسی بھی دانشورانہ مباحثے کو اور اداروں کو سبوتاژ کیا جائے۔ تاریخ نے اس کو کئی بار ثابت کیا ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ نیا نہیں ہے۔
شاہ فیصل نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی۔ کیا آپ بھی انہی خطوط پر کچھ سوچ رہے ہیں؟
ابھی تو میں جو کچھ سوچ رہا ہوں اس سے عوام کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے آس پا س کیا ہورہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اسے سمجھ نہیں پارہی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ حب الوطنی کا نقطہ نظر ہے۔
استعفیٰ کی وجہ بیورو کریسی کے مسائل ہیں، جیسے تنخواہوں میں اضافہ یا پھر اس کا تعلق صرف آرٹیکل 370 ؍ سے ہے ؟
صرف آرٹیکل 370 ؍ اس کی وجہ نہیں ہے۔ میں اس کو محدود نہیں کرنا چاہتا ۔ مگر ہاں یہ نقطہ عروج ضرور ثابت ہوا ہے۔ یہ بڑا ہی خوفناک سا معلوم ہوتا ہے ۔ انتظامی امور میں ہمارے پاس حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ اختیارات ہوتے ہیں۔ جب ہم کچھ چیزوں کو روکنے کیلئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144؍ کا استعمال کرتے ہیں تو بڑی بے چینی رہتی ہے کہ کتنے وقفے کیلئے کریں۔ اگر یہ پابندی محض 12؍ گھنٹے کی ہو تب بھی یہ بے چینی لگی رہتی ہے کہ ہم لوگوں کے بنیادی حقوق کیسے سلب کرسکتے ہیں ۔ (کشمیر میں ) 30؍ دن سے زائد ہورہے ہیں ، نہ کوئی رابطہ ہے نہ کچھ۔۔۔۔ تصور کیجئے کہ اگر ہمارے ساتھ ایسا ہو تو ۔۔۔ ایسے فریم ورک میں ادارے کمزور پڑیں گے اور جو لوگ آوازیں اٹھائیں گے انہیں ڈرایا دھمکایا جائے گا۔ میں یہ سب کچھ صرف کشمیر کے پس منظر میں نہیں کہہ رہا ہوں۔