ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں پر بغاوت کا مقدمہ اور پولیس کی آمد ...... عابد انور

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 8th May 2020, 12:50 AM | ملکی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

نئی دہلی 7/مئی :  ہندوستان قانون کو من مانے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں صف اول میں آگیا ہے۔ تمام سطح پر اس کی رینکنگ گرتی جاری ہے لیکن حکومت اس پر غور کرنے اور ملک کی شبیہہ کو داغدار ہونے سے بچانے کے لئے کوئی قدم اٹھانے کے بجائے اس طرح کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

گزشتہ پانچ ماہ کے دوران جب سے قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی  اے اے) این آر سی اور این پی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس نے بربریت کا مظاہرہ کیا تھا، خواتین کے پرائیویٹ پارٹس پر  حملے کئے تھے، گندی اورفحش گالیاں دی تھیں، یہ بات حکومت کے علم میں آئی تھی لیکن حکومت نے پولیس کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کی شان میں رطب اللسان نظر آئی۔

پردھان سیوک اور وزیر داخلہ ہر موقع پر پولیس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ کیوں کہ ان کو جو کام ملا تھا وہ اس نے اس سے بڑھ کرکیا ہے تو تعریف تو ہوگی ہی۔ اب پولیس کی عادت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ مسلمانوں پر مسجد میں ڈھنڈے برساتی نظر آتی ہے جب کہ وہاں دس پندرہ لوگ ہوتے تھے جب کہ شراب کی دکانوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے اور ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے لیکن پولیس نے ڈنڈا چلانا دور کی بات ان لوگوں کو ہٹانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ یہ امتیازی سلوک اب ہندوستان کی شناخت بنتی جارہی ہے۔

بے گناہ مسلمانوں کو پکڑو اور ہندو مجرموں کو اعزاز سے نوازو۔دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام کی گرفتاری اسی ذہنیت کا غماز ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں لکھی ہے۔ ملک کی جو صورت حال ہے جس طرح حکومت کی طرف سے کورونا کے بارے میں تبلیغی جماعت کو نشانہ پر لے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے انتہائی قابل مذمت اور قابل گرفت ہے۔ اس پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں نے اس پر دہلی حکومت اور مرکزی حکومت کو خط لکھا تھا اور کہا کہ الگ الگ نام لینے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہے اور لوگ اس کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔اس لئے الگ سے نام نہ لیا جاے۔ اس کے باوجود دہلی حکومت اور مرکزی حکومت نے الگ سے نام لینا جاری رکھا تھا اور بعد میں نام نہ لیکر اسپیشل کہہ کر اشارہ کردیا گیا۔ اس وقت کورونا صرف تین دن میں چالیس ہزار سے 52 ہزار کی عدد کو چھو چکا ہے لیکن اب حکومت الگ سے نام نہیں بتارہی تھی کیوں کہ اس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا تھا جو ہوچکا اور مسلمانوں پر حملے تیز ہوگئے، ڈاکٹر وں نے مسلمانوں کا علاج کرنے سے منع کردیا۔ کئی حاملہ عورتیں یا تو وہ خود بغیر علاج کے مرگئیں یا ان کا بچہ مرگیا۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔

دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر نیرج کمار نے بتایا تھا کہ مسٹر خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124 A(بغاوت) اور 153A (دوفرقوں کے درمیان منافرت پھیلانا)کے تحت وسنت کنج کے ایک باشندے کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے۔153Aکی سوشل میڈیا پر جس طرح دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عام لوگوں کو  چھوڑیں مرکزی حکومت کے وزراء   اس دفعہ 153A کی خلاف ورزی کرتے ہر روز نظر آتے ہیں۔ بی جے پی کا ادنی کارکن سے لیکرکونسلر، رکن اسمبلی، رکن پارلیمنٹ، وزراء  اور اعلی آئینی عہدے پر فائزلیڈران روزانہ مذکورہ دفعہ سمیت متعدد آئینی دفعات کی دھجیاں اڑاتے ہیں مگر کبھی پولیس ان کے گھر پر دستک نہیں دیتی۔دہلی فساد سے  قبل کپل،مشرا یک ڈی سی پی کے سامنے ببانگ دہل مسلمانوں کو دھمکی اور دونوں فرقوں کے منافرت والی بات کہہ کر چلا گیا مگرپولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے کپل مشرا اور پرویش ورما اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تو راتوں رات ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ اس کے بعد جو بینچ سماعت کے لئے بیٹھی اس نے سماعت ٹال دی۔ جب اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے اس پر سماعت کرنے کے بجائے واپس ہائی کورٹ بھیج دیا اور ہائی کورٹ اب تک اس پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرسکا ہے۔ پولیس نے اس وقت دلیل دی تھی کہ حالات سازگار نہیں ہیں۔ اب حالات کیسے سازگار ہوگئے کہ پچاس سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔

ذرائع نے بتایا کہ دہلی پولیس بغیر کسی نوٹس کے آئی تھی۔ جب نوٹس طلب کیاگیا تو  اس نے دکھانے سے انکار کردیا اور پولیس والوں سے کہا گیا کہ پہلے نوٹس بھیجئے پھر پوچھ گچھ کے لئے بلائیے۔پھر پولیس نوٹس بھیجنے کی بات کہہ کر واپس چلی گئی۔ یہاں بھی پولیس نے ایسے وقت کا انتخاب کیا  جب افطار کا وقت تھا۔ لاک ڈاؤن نہ بھی ہوتا تو بھی مسلمان اس وقت گھر میں رہتے ہیں۔کیوں کہ افطار کرنا ہوتا ہے۔ پولیس نے سمجھا اس وقت پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لینے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیوں کہ سب لوگ گھروں میں ہوں گے۔ مگر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے۔ یہاں کے سابق ایم ایل اے آصف محمد خاں، رکن اسمبلی امانت اللہ خاں اور متعدد افراد پہنچ گئے اور پولیس سے  نوٹس دکھانے کا مطالبہ کرنے لگے تو  پولیس جانے پر مجبور ہوگئی۔ اس کے بعد اظہار یکجہتی کے لئے جماعت اسلامی ہند کے صدر سید سعادت اللہ حسینی، جنرل سکریٹری انجینئر محمد سلیم اور دیگر لوگ بھی آئے۔

واضح رہے کہ دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر، میران حیدر، سلیم اور دیگر کو پوچھ گچھ کے لئے صرف بلایا  تھا لیکن اسپیشل سیل والوں نے کورونا میں لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لوگوں کو گرفتار کرلیا اور ان پر دہلی میں فسادات میں کرانے کی سازش کا الزام مڑھ دیا جب صفورہ کو ضمانت مل گئی تو صفورہ سمیت متعدد پر یو اے پی اے جیسا سیاہ قانون لا د دیا۔ جب کہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ فساد کس نے کرایا تھا اور کون لوگ باہر ٹرک بھر بھر کے کرائے کے ٹٹو لیکر آئے تھے کئی ٹرک اینٹ پھر جمع کئے تھے۔ فسادات کے بعد پانچ ہزار سے زائد لوگوں کوگرفتار کیا تھا جس میں بیشتر مسلمان بتائے جاتے ہیں۔ حکومت کی بے شرمی کی انتہا تو دیکھئے کہ لاک ڈاؤن کے دوران جسمانی دوری کو قائم رکھنے کے لئے جیلوں کو خالی کرایا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اس ضمن میں حکومت کو ہدایت جاری کی ہے لیکن اس دوران حکومت نے صرف دہلی میں ہی لاک  ڈاؤن کے دوران پچاس سے زائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔

 ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنی اس پوسٹ پروضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ پوسٹ ایک ایسے غیر مناسب وقت جاری کی گئی جب ملک کو ایک طبی ایمرجنسی کا سامنا ہے بلکہ انہوں نے اپنے تفصیلی بیان میں ملک کے سیکولر آئین اور جمہوری نظام پر اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ نہ پہلے اور نہ اب اپنے ملک کے خلاف عرب یا مسلم ممالک سے شکایت کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ادارے ہمارے لئے کافی ہیں۔اس کے بعدڈاکٹر ظفرالاسلام نے بروز اتوار 3 مئی 2020 کو ایک توضیحی بیان ٹوئیٹ کے ذریعے جاری کیا اور کہا کہ ”میڈیا کے ایک حصے نے  غلط بیانی کی ہے کہ میں نے اپنے 28 اپریل کے  ٹویٹ پر معذرت کرلی ہے اور اسے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے حذف کردیا ہے۔ میں نے بذات خود ٹویٹ پر معذرت نہیں کی ہے اور نہ ہی اسے حذف کیا ہے۔ میں نے بذات خود ٹویٹ کے لئے نہیں بلکہ اس لئے معذرت کی کہ وہ ٹویٹ ایسے وقت میں آیا جب ہمارے ملک کو ایک طبی ایمرجنسی درپیش تھی جس کی وجہ سے حالات کو دیکھتے ہوئے وہ ٹوئیٹ غیرمناسب اور غیر حساس تھا۔  وہ ٹویٹ اب بھی میرے ٹوئیٹر ہینڈل اور فیس بک پیج پر موجود ہے۔ مزید یہ کہ، میں نے اپنے یکم مئی 2020 کے توضیحی بیان میں واضح کردیا  ہے کہ میں اپنے خیالات اور نظریے پر قائم ہوں۔ میں اب اور مستقبل میں بھی ملک میں نفرت کی سیاست کے خلاف جدوجہد جاری رکھوں گا۔ ایف آئی آر، گرفتاری اور جیل کی قید و بند اس راستے کو تبدیل نہیں کرتی ہیں جو میں نے اپنے ملک، اپنے عوام، ہندوستانی سیکولر نظام اور آئین کو بچانے کے لئے شعوری طور پر برسوں پہلے اپنے لئے منتخب کیا ہے“۔

کورونالوجی کو سمجھئے کہ اسی دن مسٹرخان کے کویت والے ٹوئٹ کے خلاف یہ مقدمہ  درج کیا گیا تھا جس روز  بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کرکے انہیں اقلیتی کمیشن کی صدارت سے برخاست کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ ان ممبران اسمبلی نے ڈاکٹرظفرالاسلام خان پر ملک کی یکجہتی اور اتحاد کو خطرے میں ڈالنے، دنیا میں ہندوستان کی سیکولر شبیہہ کوداغدار کرنے اور ہندو،مسلمانوں کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کے الزامات لگائے تھے۔پولیس نے بھی فوراً مقدمہ درج کرلیا۔

جس طرح پولیس اور حکومت نے اپنی غلطی کو چھپانے کے لئے نظام الدین مرکزکو نشانہ بنایا اور مولانا سعد پر منی لانڈرنگ، غیرارادتاً قتل اور دیگر مقدمات درج کئے ہیں اسی طرح دہلی پولیس نے ایرے غیرے کی شکایت پر فورا ملک سے غداری اور منافرت پھیلانے کا مقدمہ درج کرلیا۔اس میں حکومت کی منشا صاف نظر آرہی ہے کہ ہر بولنے والی آواز کو کچل دی جائے۔ اسی مقصد کے تحت ملک گیر سطح پر سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمانوں سے مزاحمت کی طاقت کو ختم کیا جاسکے۔ مسلمانوں کو اس قدر خو ف و دہشت میں مبتلا کردیا جائے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھاسکیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کی مسلمانوں کے خلاف زیادتی کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ہے اور پہلی بار عرب ممالک نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور خاص طور پر عرب ممالک میں کام کرنے والے ہندوتو کے علمبردار وحشی، بدتمیز اور بد تہذیب کے خلاف سخت رخ اپنایا گیا ہے اور ہندوستانی حکومت سے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن مودی حکومت نے کرناٹک سے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ اور نظام آباد سے رکن پارلیمنٹ اروند دھرم پوری کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں کے موقف کی تائید کرتی ہے۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلمان مسلک، علاقائیت، ذات پات اور تمام چیزوں سے  بالاتر ہوکر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں اور ان جیسے لوگوں کے حق میں اپنی آواز بلند کریں۔ اس وقت اگر مسلمانوں نے اتحاد اور یکجہتی کا ثبوت پیش نہیں کیا تو وہ اپنے قتل عام، ذلت و رسوائی، سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی استحصال کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت کے ان مظالم کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھائی جائے۔ جب آپ آواز اٹھائیں گے تو دوسرے لوگ آپ کا ساتھ دیں گے اگر آپ ہی (مسلمان) آواز نہیں اٹھائیں گے تو دوسرا کیسے ساتھ دے سکتا ہے۔ 

ایک نظر اس پر بھی

منیش سسودیا کی عدالتی تحویل میں 26 اپریل تک کی توسیع

دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کو شراب پالیسی کے مبینہ گھوٹالہ سے متعلق منی لانڈرنگ معاملہ میں عآپ کے لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی عدالت تحویل میں 26 اپریل تک توسیع کر دی۔ سسودیا کو عدالتی تحویل ختم ہونے پر راؤز ایوینیو کورٹ میں جج کاویری باویجا کے روبرو پیش کیا ...

وزیراعظم کا مقصد ریزرویشن ختم کرنا ہے: پرینکا گاندھی

کانگریس جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے یہاں پارٹی کے امیدوار عمران مسعود کے حق میں بدھ کو انتخابی روڈ شوکرتے ہوئے بی جے پی کو جم کر نشانہ بنایا۔ بی جے پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہوں نے بدھ کو کہا کہ آئین تبدیل کرنے کی بات کرنے والے حقیقت میں ریزرویشن ختم کرنا چاہتے ...

مودی ہمیشہ ای وی ایم کے ذریعہ کامیاب ہوتے ہیں،تلنگانہ وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی کا سنسنی خیز تبصرہ

تلنگانہ کے وزیراعلیٰ  ریونت ریڈی نے سنسنی خیز تبصرہ کرتے ہوئے کہا  ہے کہ ہر مرتبہ مودی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں( ای وی ایمس )کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور جب تک ای وی ایم کےذریعے انتخابات  کا سلسلہ بند نہیں کیا جائے گا،  بی جے پی نہیں ہار سکتی۔

لوک سبھا انتخابات کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری

الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات 2024 کے چوتھے مرحلہ کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ کمیشن کے مطابق انتخابات کے چوتھے مرحلہ میں 10 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی 96 پارلیمانی سیٹوں پر انتخابات ہوں گے۔ اس مرحلہ کی تمام 96 سیٹوں پر 13 مئی کو ووٹنگ ہوگی۔ نوٹیفکیشن جاری ...

ملک کے مختلف حصوں میں جھلسا دینے والی گرمی، گزشتہ برس کے مقابلے اس سال گرمی زیادہ

   ملک کے مختلف حصوں میں گرمی کی شدت میں روزبروزاضافہ ہوتاجارہا ہے۔ بدھ کوملک کے مختلف حصوں میں شدید گرمی رہی ۔ اس دوران قومی محکمہ موسمیات کا کہنا  تھا کہ ملک کے کچھ حصوںمیں ایک ہفتے تک گرم لہریں چلیں گی ۔  بدھ کو د ن بھر ملک کی مختلف ریاستوں میں شدید گرم  لہر چلتی رہی  جبکہ ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...

کیا وزیرمنکال وئیدیا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے ہیں ؟ بھٹکل کے مسلمان قابل ستائش ۔۔۔۔۔ (کراولی منجاو کی خصوصی رپورٹ)

ضلع نگراں کاروزیر منکال وئیدیا کا کہنا ہے کہ کاروار میں ہر سال منعقد ہونےو الے کراولی اتسوا میں دیری اس لئے ہورہی ہے کہ  وزیرا علیٰ کا وقت طئے نہیں ہورہاہے۔ جب کہ  ضلع نگراں کار وزیر اس سے پہلے بھی آئی آر بی شاہراہ کی جدوجہد کےلئے عوامی تعاون حاصل نہیں ہونے کا بہانہ بتاتے ہوئے ...