مسلم پرسنل لاء کو سمجھئے اور اس پر عمل کیجئے از: محمد ذکی اختر رحمانی
مجھے نہ اس وقت پرسنل لا کی تاریخ بیان کر نی ہے اور نہ اس کے آئینی اور قانونی پس منظر کو آپ کے سامنے پیش کر نا ہے نہ اس سے بحث کرنی ہے کہ مسلم پر سنل لا میں تر میم و تنسیخ کا حق کسی آئین ساز جماعت یا پارلیمنٹ کو ہے یا نہیں ؟۔بلکہ مجھے اس وقت صاف اور سادہ طریقے پر مسلم پرسنل لا سے متعلق چند وہ باتیں بتلانی ہے جن سے مسلم معاشرہ کی واقفیت ضروری ہے ۔مسلم پرسنل لاء کیاہے ؟:اتنی بات توسبھی جانتے ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش کرتاہے جس میں زندگی کے ہر دور اور ہرگوشہ کیلئے احکام و قوانین اور ہدایتیں موجود ہے۔ انھیں اسلامی قوانین کا وہ حصّہ جس کا تعلّق انسان کی ذاتی اور شخصی زندگی سے ہے یا جس کا تعلق مسلمانوں کی عائلی اور خاندانی زندگی سے ہے اسی کا نام ’’مسلم پرسنل لا‘‘ ہے میاں بیوی، باپ بیٹا، ماں بیٹی، بھائی بہن، چچابھتیجا، خاندان کے ان سارے لوگوں کے درمیان تعلقات سے متعلق جو اسلامی قانون ہے اور نکاح وطلاق، خلع، وفسخ، حضانت وولایت ہبہ ووصیت اور وقف سے متعلق جو اسلامی قوانین ہیں وہ مسلم پرسنل لا کہلاتے ہیں۔ ان سارے عنوانات وابواب سے متعلق مسلمانوں کے پاس اسکی بھیجی ہوئی ہدایت قرآن پاک میں موجود ہے۔ اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا پیغام سنت کی شکل میں موجود ہے۔ اور خود نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اس پر عمل کیا ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین نے قر آنی ہدایت اور پیغامِ رسالت کو کس طرح برتا۔ اور استعمال کیا وہ بھی احادیث اور اسلامی تاریخ میں پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ محفوظ ہے۔ غرض یہ کہ مسلمانوں کے شخصی اور گھریلو مقامات سے متعلق جو اسلامی قوانین ہیں انھیں کا دوسرا نام’’مسلم پر سنل لاء ہے‘‘ چودہ سو سال سے یہ ’’مسلم پرسنل لاء‘‘ مسلمانوں پر نافذ ہے۔ اور مسلمان دنیا کے جس گوشے میں بھی آباد ہے وہ اسی پرمسل سنل لاء پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔
تاریخ کے اس طویل عرصے میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، تہذبیں بدلی ہیں، ملکوں کی معاشرت میں فرق آیا ہے، اور نئے نئے مسائل برابر پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن علمائے امت اور ائمہ اسلام نے کتاب وسنت کی روشنی میں نئے مسائل کو حاصل کیا ہے۔ اور جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر ایسے جوابات دئیے ہیں، جن سے معاشرہ میں پیدا ہونے والی دقتیں دور ہوگئی ہیں۔ اور مسلم معاشرہ نے صلاح وفلاح کی طرف قدم آگے بڑھایا ہے۔یہ شخصی اور گھریلو قوانین ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے قوم کا امتیاز اور ملت کا تشخص باقی رہ سکتا ہے۔ اور یہ پر سنل لاء ہی وہ چیز ہے جو ایک معاشرے کو دوسرے معاشرے الگ اور ممتاز کرسکتا ہے۔اسلامی پرسنل لاء کے ذریعہ ایک ایسا معاشرہ تیار ہوتا ہے،جس کی بنیاد خدا کے وجود اور اسکی وحدانیت اور اسکی ربوبیت پر ہوگی، اس معاشرہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور آپؐ کی سنت کا جلوہ ہر قدم پر نظر آئیگا۔ اس معاشرہ کا ہر فرد اپنے ایمان لانے کی ذمہ داری محسوس کریگا۔ اور اس یقین کے ساتھ کوئی علمی قدم اٹھائیگا کہ ہمیں خدا کے سامنے اپنے ہر کام کا جواب دینا ہوگا۔ ہندوستان اور مسلم پرسنل لاء: جب ملک ہندوستان آزاد ہو ااور اس کا دستور بناتو دستور میں ہندوستان میں رہنے والوں کے عقائد، مذہب اورتہذیب کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ۔ ساتھ ہی ساتھ دستور کی دفع( ۴۴)میں ملک کیلئے یکساں شہری قانون بنانے اور اس کے نافذ کرنے کی طرف رہنمائی کی گئی۔
یہی ہدایتی دفعہ( ۴۴)مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کی راہ پیدا کرتی ہے۔ اس وقت سے اب تک اس سلسلہ میں جو حالات وواقعات پیش آتے رہے ہیں۔ اور حکومت کے ذمہ داروں نے مجالس قانون ساز کے اندر اور باہر جو بیانات دیئے ہیں، اور حکومت نے بالواسطہ عام قانون سازی کے ذریعہ یا اپنے بعض سرکلر کے ذریعہ مسلم پرسنل لاء کو جس طرح متأثر کرنے کی کوشش کی ہے،اس کے پیش نظر ہرمبصر بجا طور پر یہ سمجھ سکتا ہے، کہ مسلم پرسنل لاء کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، اور وہ حضرات جو اس ملک میں قانون کے مفکرین ہیں، ان کا ذہن کسی بھی وقت یکساں سول کوڈ کے نفاذسے خالی نہیں رہا ہے۔اس موقعہ پر ایک بات صاف طور کہنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ حکومت جمہوری ہے، اور جمہوری قدروں کی تحفظ کرنا چاہتی ہے، تو اسے آنکھ کھول کر دیکھ لینا چاہئے، کہ مسلمان اپنے پرسنل لاء میں تبدیلی کرنا نہیں چاہتے۔ اس معاملے میں ان کے جذبات بے حد نازک ہیں۔۱۹۷۲ سے لیکر اب تک کہ تمام اجتماعات نے جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت منعقد ہوئے یہ ثابت کردیا کہ ہندوستان میں رہنے والے اور بسنے والے مسلمانوں کا ہر طبقہ خواہ وہ مذہبی ہو یا ثقافتی،سماجی ہو یا سیاسی،مسلم پرسنل لابورڈ میں ترمیم وتنسیخ اور تبدیلی کا شدید ترین مخالف ہے ان حالات میں ہمارے ملک کی جمہوری حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مطمئن کرے کہ ان کا پرسنل لاء دست وبرد محفوظ رہیگا اور اس سواخ کو بند کرے جہاں سے مسلم پرسنل لاء کی تبدیلی اور مشترکہ سود کوڈکی تیاری کے لئے مواد فراہم ہوتا ہے اور وہ دستور ہند کی ہدایاتی دفعہ۴۴ ہے۔ آج کے اس موجودہ حالات کے اندر جب کہ مسلم پرسنل لاء کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس میں اپنے اور غیردونوں شریک ہی اور ہماری ہی باتوں سے وہ دلیل پکڑکے مسلم پرسنل لاء میں ناکام کوششوں میں جدجہد کررہے ہیں تو اسکے لئے ہمیں سب سے پہلے مسلم پرسنل لاء اور اسکی تفصیلات کا عمل ہونا چاہئے، مسلم پرسنل لاء سے متعلق قوانین کے استعمال کا صحیح طریقہ معلوم ہونا چاہئے، مسلم پرسنل لاء میں دیئے گئے حقوق کا غلط استعمال اور اس سلسلہ میں ہماری تھوڑی سے لغزش مخالفین کے لئے مواد مہیا کرتی ہے۔