ملکی معیشت کے برے اثرات سے ہر شعبہ کنگال؛ بھٹکل میں بھی سونا اور رئیل اسٹیٹ زوال پذیر؛ کیا کہتے ہیں جانکار ؟
بھٹکل:16؍ستمبر(ایس اؤ نیوز) ملک میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ملکی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہونےکے متعلق ماہرین نے بہت پہلے سے چوکنا کردیا تھا۔ اب اس کے نتائج بھی ظاہر ہونے لگے ہیں۔ رواں سال کے دوچار مہینوں سے جو خبریں آرہی ہیں، اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں روزگاروں کا بےروز گارہونا، بے روزگاری کی شرح میں لگاتار اضافہ ، منڈی کی طلب میں سستی اور سیال پذیری( اثاثوں کو نقد میں تبدیل کرنا) کا بحران درپیش ہے۔ اسٹاک مارکیٹ نیچے چل رہی ہے بار بار مارکیٹ گرنے سے سرمایہ کاروں کو بھی جھٹکا لگاہے۔ معیشت میں سست روی سے عوام خوف زدہ ہیں ۔
ملک میں رئیل اسٹیٹ بھی ملکی معیشت کے لئے کافی اہمیت رکھتاہے۔ بلڈرس اور ہاؤسنگ فائنانس کمپنیاں خریداروں کو بڑی بڑی رعایت اور کم شرح پر قرض دینےکا لالچ دے رہی ہیں، جب کہ حالیہ دنوں میں ملک میں ہاؤسنگ مارکیٹ کچھ خاص نہیں کرپارہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ سرمایہ کاروں کو اس شعبہ میں سرمایہ لگانا اب بے حد نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔ ملکی معاشی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ضلع اترکنڑا کی معیشت میں اہم رول ادا کرنے والے شہر بھٹکل کو دیکھیں تو یہاں کی حالت بھی صاف صاف دیکھی جاسکتی ہے۔
بھٹکل کے قریب 10ہزار سے زائد افراد بیرونی ممالک میں برسرروزگار ہیں، اکثر لوگ خلیجی ممالک میں مستحکم نظر آتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب بھٹکل کا نام لیتے ہی لوگوں کے کانوں میں دبئی اور گلف کے دولت کی چھن چھن سنائی دینے لگتی تھی، مگر ایک ایسے وقت میں جب اترکنڑا ضلع کے کاروار اور انکولہ میں مینگنیز کاکاروبار آسمان کو چھو رہا تھا اور ہرکوئی کروڑوں کی بات کررہاتھا ، سرسی کے اطراف کے دیہاتوں میں بھی لوگ سپاری کے بل بوتے پر کروڑوں میں بات کرتے دیکھے جاتے تھے، ایسے حالات میں بھی بھٹکل اپنی گلف کی شان باقی رکھے ہوئے تھا۔ بڑے پیمانے پر ہونےو الی سونے کی تجارت میں جب 1993 کے فسادات کے بعدکمی واقع ہونے لگی تو یہاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے لگا تھا۔ بھٹکل جیسے چھوٹے سے شہر میں لوگ روزانہ 10-12زمینی دستاویزات لے کر رجسٹریشن آفس کے اطراف چکر لگایا کرتے تھے آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی بھٹکل میں زمینوں کی قیمت بھی آسمان کو چھونے لگی۔ زمینات کی مانگ اور لین دین کو دیکھتے ہوئے رئیل اسٹیٹ صنعت کاروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔ انگلیوں پر شمار کئے جانے والے اراضی ایجنٹ کی تعداد سیکڑہ پار کرگئی ۔روزگار کی تلاش میں گھومنے والے لڑکے ہاتھوں میں رجسٹریشن کی کاپیاں تھامے نظر آنے لگے۔ پیدل بازار جانے والے کاروں میں گھومنے لگے۔ قومی شاہراہ سے متصل چند خاص جگہوں پر پس پردہ 40-50لاکھ روپیوں کا بیوپار ہونے لگا۔ بھٹکل کے شہری علاقے میں رہائش پذیر اکثریت کے لئے بھٹکل کے ایک پار پورورگا تو دوسری پار وینکٹاپور کی زمینات کی آسمان کو چھونے والی قیمتیں بھی کوئی پریشانی میں مبتلا نہیں کرسکیں تھیں۔ زمینوں کی قیمت دوگنی سے دس گنا اور بیس گنا بڑھ رہی تھی کہ ایسے حالات میں مرکزی حکومت نے نوٹ بندی کا اعلان کردیا جس کے ساتھ ہی رئیل اسٹیٹ کا کاروبار تیزی کے ساتھ نیچے آگیا۔ایسے میں سعودی و دیگر گلف کے قوانین میں سختی سے حالات مزید بدتر ہوگئے، آج جب پورے ملک میں معیشت کا حال بے حال ہے، بھٹکل کا رئیل اسٹیٹ کا دھندہ بھی گہری نیند سورہا ہے اور اُس کی بیداری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اب رئیل اسٹیٹ کے نام سے جو کچھ کام ہورہاہے وہ دراصل پرانے معاملات ہیں، جس کو نپٹایا جارہا ہے۔ حالات سے پریشان ہوکر اپنی زمینات کو بیچنے کی سوچیں بھی تو قیمت نہیں مل رہی ہے۔
ایک طرف رئیل اسٹیٹ زوال پذیر ہے تو دوسری طرف ضلع کے بقیہ تعلقہ جات میں عوام کے لئے ای۔ جائیداد کا مسئلہ بھی دردِ سر بنا ہواہے۔ زمین کی خریداری ، زرعی زمین پر گھروں کی تعمیر ، تعمیر کے لئے قرضہ جات کاملنا محال ہوگیا ہے۔ سب کے لئے قانون کی حدبندی وبال بن گئی ہے۔ بھٹکل میں رئیل اسٹیٹ کی چمک اتنی تھی کہ بنگلورو والے بھی یہاں زمین خریداری میں ہاٹھ ڈالنے لگے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کی 20-30ایکڑ زمین بنگلورکے صنعت کاروں کے نام پر بھی درج ہے۔ یاد رہے کہ لندن فرار ہونے والے وجئے ملیا کا نام بھی یہاں رئیل اسٹیٹ کے لین دین میں سنا جارہا تھا۔
ملک کی معیشت کے دگرگوں حالات کو دیکھتے ہوئے ذمہ داران اب یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ کسی بھی طرح کی جائیداد، زمینات، سونا وغیرہ خریدنے سے پرہیز کیاجائے، حالات پر گہری نظر رکھنے والے جانکار تو اس بات کا بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر آپ کے پاس سرمایہ ہے تو اُسے سنبھال کر رکھیں، کسی بھی طرح کی خریداری میں نہ لگائیں، یہاں تک کہ کار، موٹر بائک وغیرہ خریدنے سے بھی گریز کریں اور حالات کے سدھرنے کا انتظار کریں۔