مرکز نے سپریم کورٹ سے کہا، رافیل معاہدہ میں پی ایم اوکادخل نہیں، تمام عرضیاں ہوں مسترد
نئی دہلی، 26 مئی (ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن نے رافیل لڑاکا طیارے معاہدے میں بے ضابطگیوں کا الزام لگاتے ہوئے اسے سب سے بڑا مسئلہ بنایا۔کانگریس صدر راہل گاندھی نے اس معاہدے کے لئے براہ راست طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ذمہ دار بتایا۔ان تمام الزاموں کے باجوود ملک کی عوام نے نریندر مودی کو منتخب کیا اور بی جے پی کو اکثریت دی،اب جبکہ نریندر مودی دوسری بار وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے جا رہے ہیں تو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب دیتے ہوئے رافیل سے منسلک عرضیاں مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔سپریم کورٹ کو بھیجے گئے تحریری جواب میں حکومت نے کہا ہے کہ رافیل معاملے پر نظر ثانی پٹیشن مصنوعی اور غلط الزامات پر مبنی ہے۔حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے کوئی معلومات نہیں چھپائی ہے۔اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو اس معاہدے میں وزیر اعظم کے دفتر کے دخل والے الزام پر بھی جواب دیا۔حکومت نے کورٹ کو بتایا کہ اس دفاعی سودے میں وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے کوئی متوازی بات چیت نہیں کی گئی ہے۔یہ تمام دلائل دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا کہ اس سلسلے میں دائر پٹیشن چوری ہوئی فائلوں سے لی گئی کچھ ایک معلومات پر مبنی ہے، جس کی غلط تشریح کی گئی ہے۔حکومت نے کہاکہ کسی بھی مداخلت سے ہندوستانی فضائیہ کے طریقہ کار پر اثر پڑ سکتا ہے۔رافیل ڈیل میں مداخلت کرنے اور معاہدہ کی جانچ کرانے کی بیجا کوشش کی جا رہی ہے۔عدالت کو پہلے بھی فیصلے میں کوئی غلطی نہیں ملی تھی۔کیگ کی رپورٹ نے بھی حکومت کے اقدامات کو برقرار رکھا ہے،لہذا عرضیاں مستردکی جائیں۔بتا دیں کہ فرانس کی داسو کمپنی سے ہندوستانی فضائیہ کے لئے رافیل لڑاکا طیارے خریدے جا رہے ہیں۔یہ معاہدہ کانگریس قیادت والی یو پی اے حکومت میں ہواتھا۔راہل گاندھی الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کی حکومت کے دوران طیارے کی جو ڈیل ہوئی تھی، اس سے تقریبا تین گنا قیمت میں مودی حکومت کے دوران رافیل خریدا جا رہا ہے۔راہل یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ طیارے بنانے کی کنٹراکٹ ایچ اے ایل کمپنی کے بجائے صنعت کار انل امبانی کی نو تشکیل شدہ کمپنی کو دے کر انہیں 30000 کروڑ کا فائدہ پہنچایا گیا۔انہیں تمام الزامات پر سپریم کورٹ سے ایک بار مودی حکومت کو راحت مل چکی ہے، لیکن فی الحال نظر ثانی درخواست پر کورٹ سماعت کر رہا ہے اور انہیں نظر ثانی درخواستوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ مرکز نے سپریم کورٹ کے سامنے رکھا ہے۔