جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ کی دوڑ
واشنگٹن،25/جولائی (آئی این ایس انڈیا) جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں حالیہ عرصے میں بہت سی سیاسی تبدیلیاں رْونما ہوئی ہیں۔ بھارت کے چین اور دیگر ہمسائیہ ملکوں سے تعلقات میں سرد مہری کے بعد چین کے ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کے اقتصادی معاہدے کے بعد خطے کی سیاست ایک نیا رْخ اختیار کر گئی ہے۔چند روز قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد سے بھی ٹیلی فون پر بات کر کے تعلقات میں بہتری لانے کی پیش کش کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں چین اپنا اثر و رْسوخ بڑھانے کے علاوہ بھارت کے قریب سمجھے جانے والے ملکوں سے تعلقات کو فروغ دے کر امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔حال ہی میں ایران نے بھارت کو چاہ بہار ریل منصوبے سے الگ کر کے چین کے ساتھ 25 سال پر مشتمل 400 ارب ڈالر کے اقتصادی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ چاہ بہار بندرگاہ کا یہ منصوبہ تقریباً نصف صدی پرانا ہے لیکن اس کی تعمیر میں تیزی 2003 میں آئی جب بھارت نے ایران سے سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے درمیان گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور ترقی کے لیے طے پانے والے معاہدے کے بعد عمل میں آیا تھا۔ عالمی تجارت کی اہم ترین گزرگاہیں خلیج فارس اور بحیرہ ہند کا آپس میں اکثر موازنہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین ان دونوں بندرگاہوں کو بھارت اورچین میں جاری مقابلے کی دوڑ کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل کے بعد اب یہ پاکستان، افغانستان اور چین کی سمندری تجارت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسے دنیا کی سب سے زیادہ گہری بندرگاہ کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں چاہ بہار اور اس کو ملانے والے زمینی راستوں کی تعمیر میں حائل رہی ہیں۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان کی سرحد تک اس ریلوے منصوبے پر 2016 میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی، ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دستخط کیے تھے۔