مظاہرین کے خلاف کارروائی جمہوریت کی توہین
بنگلورو،2/جنوری(ایس او نیوز/سالارتجزیہ) شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پورے ملک میں ہندو-مسلمان ودیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مظاہرے جاری ہیں - مودی کے غیرجمہوری وغیرآئینی فیصلے کے خلاف گذشتہ دنوں کئی ریاستوں میں ہورہے احتجاجات،تشدد کی نذرہوگئے جس میں یوگی کا اترپردیش سرفہرست ہے جہاں 20 سے زیادہ نوجوانوں کی موت نے حکومت کو بیک فٹ پر کھڑا کردیا-ویڈیو وائرل ہونے کے باوجود حکومت باربار انکارکررہی ہے کہ پولیس نے گولی نہیں چلائی تو کیا مظاہرین نے احتجاج کے دوران اپنے ساتھیوں کو مارڈالا- آخر اس ویڈیو کی تحقیقات کیوں نہیں ہوتی جو بتارہا ہے کہ پولیس ہاتھ میں بندوق لئے مظاہرین پر فائرنگ کررہی ہے -حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے مختلف حربے اپنانے میں مصروف ہوگئی-اس نے جہاں تشدد کے دوران تباہ املاک کی بھرپائی کے لئے مظاہرین کو نوٹس جاری کرنا شروع کردیا وہیں بدلہ لینے کی بات کرکے بحیثیت وزیراعلیٰ جمہوریت کے اصو ل و ضوابط کے خلاف کام کیاہے۔خبر کے مطابق اتر پردیش پولیس نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے25ارکان کو گرفتار کیا ہے۔ یہ گرفتاری ریاست کے مختلف حصوں سے ہوئی ہے۔ انہیں مبینہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کا نام ان دنوں بحث میں ہے۔ یوپی میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کیخلاف احتجاج میں مبینہ تشدد میں پی ایف آئی تنظیم کا نام سامنے لایا گیا تھا۔ پی ایف آئی2006میں کیرلا میں نیشنل ڈیولپمنٹ فرنٹ کے مرکزی تنظیم کے طور پر شروع ہوا تھا۔اس سے پہلے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی لگانے کا یوپی کی یوگی حکومت نے مرکزی وزارت داخلہ کو خط بھیجا تھا،وزارت داخلہ نے اس خط کو قبول بھی کر لیا تھا۔ یوپی کے محکمہ داخلہ نے پی ایف آئی پر قدغن لگانے کی تجویز مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجی تھی۔اس معاملہ میں مرکزی وزارت داخلہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور این آئی اے سے ’خفیہ اطلاعات‘ لے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزارت داخلہ گزشتہ چند ماہ میں پی ایف آئی سے منسلک سرگرمیوں کا جائزہ کرے گا۔مانا جا رہا ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ قانون مشورہ بھی لے سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کیخلاف پرتشدد مظاہرے کے دوران پکڑے گئے پی ایف آئی کے رکن اور ان کے مبینہ تعلقات نام نہاد دہشت گرد تنظیم ’سیمی‘ کے ساتھہ ونے کی اطلاع یوپی پولیس نے وزارت داخلہ کو دی ہے۔ ملک کی کئی جانچ ایجنسیوں کو شک ہے کہ ملک بھر میں سی اے اے اور این آرسی کے نام پر پرُ تشددمظاہرے میں پی ایف آئی سے وابستہ لوگ شامل تھے۔ ملٹی ایجنسی سینٹر(MAC)کی رپرٹ کے مطابق پی ایف آئی سے وابستہ لوگوں نے یوپی کے کئی اضلاع میں میٹنگ کی تھی۔ ذرائع کے مطابق شہری ترمیم قانون بننے سے سے پہلے پی ایف آئی سے وابستہ لوگوں نے آسام اور مغربی بنگال میں اس قانون کی مخالفت میں عام لوگوں کے درمیان پرچے بھی تقسیم کئے تھے۔خیال رہے کہ پی ایف آئی نے یوپی پولیس کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری نے کہا ہے کہ یوپی پولیس نے تنظیم پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں، جو کہ غیر سطحی اور بدلہ کی کاروائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے اپنے تمام اختلافات سے قطع نظر ہاتھ ملایا، اور ملک بھر کے شہروں اور دیہات میں قانون کیخلاف مارچ کیا۔ یہ صرف بی جے پی حکومت ریاست تھی جنہوں نے احتجاج کو پرتشدد کہہ کر دبانے کی کوشش کی گئی۔ زیادہ تر ریاستوں میں پولیس اہلکار نے لوگوں کے جمہوری حقوق کا احترام کیاہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ بغیر تحقیق وتفتیش کے کسی تنظیم پر پابندی لگانے کی سفارش کرنا کیا جمہوری طریقہ ہے؟ بجرنگ دل،ہندوواہنی،سری رام سینا اور گؤرکشا کے نام پر چھوٹی موٹی تنظیموں کے کارکن دن رات جمہوریت کی دھجیاں اڑانے میں مصروف رہتے ہیں -حکومت کے ہر فیصلے کو صحیح قرار دیتے ہوئے پورے ملک میں تشدد کے ساتھ اسے نافذ کرنے کے لئے حکومت کی آواز میں آواز ملاتے ہیں - ایسے انتہا پسند کارکنوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ ان کے خلاف نہ تو تحقیقات ہوتی ہیں اور نہ ہی آوازیں بلند ہوتی ہیں - پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے تعلق سے اگر یوگی حکومت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو یقیناً اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے - کارکنوں کی گرفتاری ہونی چاہئے -اس تنظیم پر پابندی لگنی چاہئے لیکن اگر نہیں ہے تو پھر اس طرح کاواویلا مچاکر پرامن فضا کو مکدرکرنے کی سازش بی جے پی،آرایس ایس اور بجرنگ دلیوں کی پرانی سازش ہے - تحفظ گائے کے نام پر اخلاق، پہلو خان، جنید، نعیم، علیم الدین ودیگر مسلم نوجوانوں کو تڑپاتڑپاکر ماردیا گیا لیکن مارنے والے آج بھی یوگی اور مودی حکومت میں سرعام عزت ووقار کے ساتھ جی رہے ہیں -