ہری دوار کی دھرم سنسد پر عالمی میڈیا کا سخت ردعمل؛ مسلمانوں کے قتل کے اعلان پر نیویارک ٹائمز سے الجزیرہ تک میں تشویش کا اظہار، ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے بھی آواز اٹھائی
واشنگٹن، 26؍دسمبر (ایس او نیوز ایجنسی ) گزشتہ دنوں ہندوستانی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں ہندوتوا وادی لیڈروں کی دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کئے جانے کے معاملے پر عالمی میڈیا نے سخت نوٹس لیا ہے۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس نے نہ صرف اس خبر کونمایاں طور پر جگہ دی ہے بلکہ اس پر تنقید بھی کی ہے۔ اس میں مغرب سے لے کر ایشیا تک کے میڈیا ہاؤس شامل ہیں۔
امریکہ کے سب سے بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز نے اس خبر کو صفحہ اول پر جگہ دی اور سرخی لگائی کہ ’’ہندو انتہا پسندوں کا مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان ۔ ہندوستان کے لیڈران خاموش‘‘۔ خبر کے اندرلکھا ہے کہ’’ اس ہفتے دائیں بازو کے کارکنان اور سنتوں نے ایک اجلاس میں ایک آواز میں قسم اٹھائی کہ وہ آئینی طور پر سیکولر ملک ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کریں گے۔ چاہے اس کیلئے انہیں مرنے اور مارنے کی ضرورت کیوں نہ پڑے۔ اخبار آگے لکھتا ہے کہ’’ کھچا کھچ بھرے آڈیٹوریم میں جنوبی بازو کے سنتوں نے دیگر ہندوؤں کو ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی اپیل کی ان میں بااثر مذہبی رہنما بھی تھے جن کے وزیر اعظم نریندرمودی کی پارٹی سے قریبی تعلقات میں نیو یارک ٹائمز نے آگے طنزکیا ہے کہ’’ ثبوتوں کی کمی کے باوجود سماجی کارکنان اور کامیڈینس کو گرفتار کرنے والی پولیس اس معاملے میں خاموش ہے ۔“
مشرق وسطی کی مشہور ترین ویب سائٹ الجزیرہ نے اس خبر کا عنوان دیا ہے ہندوستان : مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کرنے والے ہندو اجلاس پر برہمی ‘‘ خبر میں لکھا ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے کہ ایک خاتون کہہ رہی ہے کہ ہندوؤں کو ناتھورام گوڈسے کی پوجا کرنی چاہئے جس نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا۔ ایک دیگر رکن سنت مہنت گری جن کی کئی بی جے پی لیڈروں کے ساتھ تصویر ہے، انہوں نے صفائی کی اپیل کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔“ مشہور امریکی اخبار بلومبرگ نے سرخی لگائی ہے۔ ’’مذہبی پروگرام میں مسلم مخالف تقریر پر پولیس کی جانچ‘‘ جبکہ خبر کے اندر لکھا ہے’’ شمالی ریاست کے شہر ہری دوار میں ایک ہندو اجلاس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کے معاملے میں پولیس نے جانچ شروع کی ہے۔ سوشل میڈ یا پر وائرل ویڈیو میں بھگوا کپڑوں میں ملبوس سادھو سنت مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے خلاف تشدد کی وکالت کر رہے ہیں۔
پڑوسی ملک پاکستان کے انگریزی اخبار ” دی ایکسپریس ٹریبون‘‘ نے بھی اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ’’ پروگرام میں شامل ایک سنت نے کہا میانمار کی طرح، فوج سیاستدانوں اور ہر ہندو کو اس ’صفائی ‘ (مسلمانوں کی ) کیلئے ہتھیار اٹھالینا چاہئے ۔ کوئی اور متبادل نہیں بچا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل : اخبارات اور ویب سائٹس کے علاوہ عالمی سطح کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خاص کر امریکی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ روتھ نے ٹویٹ کیا ہے کہ جس طرح ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کر رہے ہیں ، وہ پورے ہندوستان میں بڑھ رہے مسلم مخالف جذبات کی مثال ہے، ہندوستان کے لیڈر خاموش ہیں۔ امریکہ ہی کے عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر آبش حسین نے ٹویٹ کیا’’ مودی کی بنیاد کا اہم حصہ : کھچا کچ بھرے آڈیٹوریم میں جنوبی بازو کے لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور قتل عام کرنے کیلئے کہا ان میں سے کئی لوگوں کے بی جے پی سے تعلقات ہیں۔‘‘