تیجسوی سوریا کی حرکت کے بعد، بنگلور شہر میں مسلم نوجوانوں کے تئیں پولیس کے تیور میں سختی
بنگلورو9؍مئی(ایس او نیوز)بنگلورو ساؤتھ کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریا نے حا ل ہی میں بی بی ایم پی کی طرف سے کورونا متاثرین کی رہنمائی کے لئے قائم بنگلورو ساؤتھ وار روم میں داخل ہو کر ہنگامہ کھڑا کیا اور اس دوران جس طرح 17مسلم نوجوانوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو اس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی کہ سارا گھپلہ انہیں نوجوانوں نے کیا ہو۔
اس کے بعدشہر کی مختلف کمپنیوں میں کام کرنے والے مسلم ملازمین کو شبہ کی نظرسے دیکھنے کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور مسلم نوجوانوں کو ہراساں کرنے کے معاملہ میں تیجسوی سوریا کی حرکت کے بعد بنگلورو پولیس نے بھی اپنے تیور الگ ہی کر لیے ہیں۔جنتا کرفیو کے لاک ڈاؤن میں بدلنے سے پہلے ہی پولیس جوانوں کی طرف سے جہاں گاڑیوں کو روکا جا رہا ہے، وہاں اگرگاڑی چلانے والا اپنی شناخت ظاہر کرے اور وہ مسلم ہے تو اس کو بے وجہ ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولیس کے اس طرح کے رویہ کا ثبوت جمعہ کے روز شہر کے بوم سندرا میں پیش آیاواقعہ ہے۔ دودھ کی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک ملازم کو بیٹ پولیس جوانوں نے روکا، پہلے اس کو پکڑ لیا اور بعد میں اس کی گاڑی ضبط کرنے کی کوشش کی۔ اس مرحلہ پر جب اس نوجوان صادق پاشاہ(نام تبدیل) نے اپنی کمپنی سے رابطہ کیا تو کمپنی سے پولیس والوں کو بتایا گیا کہ وہ کمپنی کا ڈیلیوری بوائے ہے، چونکہ دودھ کی فراہمی پر لاک ڈاؤن میں کوئی روک نہیں، ا س لئے وہ دودھ لے جا رہا تھا۔ اس کے باوجود اس نوجوانوں کوتھانے لے جایا گیا، وہاں بھی سب انسپکٹر نے اس کے ساتھ نسلی امتیاز کا سلوک کیا اور کمپنی کی طرف سے اس کا نام بتائے جانے پر بار بار اس کا نام دریافت کر کے اس کے سامنے دہشت کا ماحول برپا کرنے کی کوشش کی۔ اس کمپنی میں 500ملاز م ہیں، جن میں سے30 مسلمان ہیں۔ تمام کے تمام معاشی پسماندہ پس منظر سے آتے ہیں۔ اس نوجوان کے ساتھ پولیس کے سلوک کی خبر جیسے ہی واٹس ایپ کے ذریعے پھیل گئی ڈی سی پی نے انسپکٹر کو فون کیا اورمعاملہ کی تفصیل طلب کی اور ایس آئی کو آڑے ہاتھوں لینے کے بعد اس نوجوان کو جانے دیا گیا اوراس کی گاڑی بھی لوٹادی۔