پرسنل لاء بورڈ لڑکیوں کو فتنہ ٔارتداد سے بچا نے کیلئے فکرمند، ندوۃ العلماء میں بورڈ کی مجلس عاملہ میں متعدد شرکاء نے مبذول کرائی توجہ
لکھنؤ، 6؍فروری (ایس او نیوز) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اتوار کو اپنی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ’لوجہاد‘ کے مفروضےاوراس کے انتقام کے نام پر بھگوا عناصر کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو گمراہ اور مرتد کرنے کی سازش کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس فتنے کے تدارک کی ضرورت سے اتفاق کیا۔ اس کے ساتھ ہی بورڈ کے اراکین نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششوں پر تشویش کااظہار کیا مگر عوامی احتجاج یاقانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے گفت وشنید کا راستہ اختیار کرنے پر اتفاق کیا۔
ممبئی سے شائع ہونے والے معروف اردو اخبار انقلاب کی رپورٹ کے مطابق آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ میں اس کے رکن یاسین علی عثمانی نے مسلم لڑکیوں کے ارتداد کے مسئلہ کو اٹھایا جس کی تائید دیگر اراکین نے بھی کی اور کہا کہ ’لو جہاد‘ کی اصطلاح کے ایجاد اور متعدد ریاستوں میں شروع ہوئے پروپیگنڈے کے بعد اس میں تشویشناک حدتک اضافہ ہواہے۔
یاسین علی عثمانی نےاس سلسلے میں بتایا کہ ’’بورڈ میں اس پر بحث نتیجہ کن نہیں رہی لیکن بورڈ کے نوٹس میں مسئلہ آنے کے بعد اب اس پر آئندہ میٹنگ میں لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔‘‘
جمعیۃ علماءہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے بتایا کہ ’ لو جہاد ‘ کی اصطلاح مسلمانوں پر تہمت اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کیلئے گڑھی گئی ہے تاکہ یہ باور کرایاجاسکے کہ مسلمان اس طرح کی تحریک میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’لو جہاد‘ صرف پروپیگنڈہ ہے، اس کے برعکس شدت پسند ہندو اس تحریک میں شامل ہیں، جو مسلم لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرارہے ہیں۔ اس کے متعدد واقعات شاہد ہیں۔ اس مسئلے سے بچنے کیلئےانہوں نے ایسے تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیاجہاں مسلم بچیاں اسلامی روایات کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکیں۔
پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ میں مولانا فخر الدین اشرف، پروفیسر سید علی نقوی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا محمود مدنی، مولاناسجاد نعمانی، مولانا مصطفی رفاعی جیلانی، بیرسٹراسد الدین اویسی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، مولانا ولی فیصل رحمانی، ڈاکٹرقاسم رسول الیاس، کمال فاروقی، ایڈوکیٹ یوسف مچھالہ ، مولانا سید بلال حسنی ندوی، مولانا عتیق احمد بستوی، شمشاد احمد ایڈوکیٹ، طاہر حکیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر مونسہ بشریٰ اور دیگر شریک تھے۔
بورڈ کی یہ اہم میٹنگ بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی صدارت میں دارالعلوم ندوۃالعلماءمیں صبح ساڑھے۱۰؍بجے شروع ہوئی جس میں یکساں سول کوڈ کا معاملہ چھایارہا۔بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مسئلہ کے حل کیلئے ۳؍نکات پیش کئے ایک عدالت کا رخ کرنا ، دوسرے احتجاج کرنا اور تیسرے گفت وشنید سے معاملے کو حل کرنا۔ سب سے پہلے بورڈ کے نائب صدر اور جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی سے اس سلسلہ میں روشنی ڈالنے کیلئے کہا گیا۔ مولانا نے کہا کہ عدالت کا راستہ اس لئے درست نہیں کہ عدالت سے فیصلہ خلاف ہونے کے بعد معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔ احتجاج کی صورت میں یہ صرف اور صرف مسلمانوں کا مسئلہ بن جائے گا اور اس کے خلاف دیگر مذاہب کے لوگوں کو کھڑا کرکے نفرت انگیزی کی جائے گی ، جو نقصاندہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت سے معاملے کو حل کرنا زیادہ بہتر ہے۔اس پر سبھی نے اتفاق کیا۔ میٹنگ میں نشاندہی کی گئی کہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے ، دیگر اقوام کو بھی اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جوڑا جائے۔ بورڈ نے ایک مرکزی کمیٹی کے ساتھ ہی سبھی ریاستوں کے لئے کمیٹیاں تشکیل دیں۔کمیٹیوں کو حکومت کے بات چیت کے ساتھ ہی سیاسی لیڈران بالخصوص اپوزیشن لیڈران کو اعتماد میں لے کر بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی انہیں دلت ، پسماندہ اور دیگر اقوام کے لیڈروں اور دانشوروں کو بھی اس معاملے میں اپنے ساتھ جوڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ بات چیت سے مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی ۔ بصورت دیگر عدالت سے رجوع اور پرامن احتجاج کا آئینی حق بطور شہری ہمارے پاس ہے ۔ یعنی آخری مرحلہ میں احتجاج کی راہ اختیار کی جائے گی ۔اس کے ساتھ ہی عبادتگاہوں کا معاملہ بھی بورڈ کی مجلس عاملہ میں تفصیل سے زیر گفتگو آیا۔
میٹنگ میں کہا گیا کہ عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء کا قانون خود حکومت کا بنایا ہوا ہے، جسے پارلیمنٹ نے پاس کیاہے، اس کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے، ورنہ پورے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوجائے گی اور یہ ملک کیلئے بہت ہی بدقسمتی کی بات ہوگی۔میٹنگ میں بورڈ کے ممبران کیلئے ضابطہ اخلاق بھی طے کیا گیاہے ، جس کے تحت کوئی بھی ممبر بورڈ میں طے کی ہوئی بات سے اختلاف نہیں کرے گا۔بورڈ کے رکن کی زندگی میں کوئی غیر اخلاقی عمل سرزد نہ ہو۔ میٹنگ میں بورڈ کی جانب سے تیار کردہ نکاح نامے کے مسودہ پر بھی بحث ہوئی ۔ اس کے کئی نکات پر اشکال کی صورت میں اس پر آئندہ میٹنگ میں بات کرنے کی بات طے ہوئی ۔
وہیں بورڈ نےعام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ نکاح کیلئے بورڈ کے مرتب کردہ نکاح نامے کا استعمال کریں اورزوجین میں باہمی نزاعات کو حل کرنے کیلئے دارالقضاء یا محکمہ شرعیہ کو ثالث بنائیں ۔