پینٹاگان میں برطرفی کی لہر نے اعلی مشاورتی کونسل کو بھی لپیٹ میں لے لیا
واشنگٹن،26نومبر(آئی این ایس انڈیا)امریکا کے تین سابق اور موجودہ ذمے داران نے انکشاف کیا ہے کہ وزارت دفاع پینٹاگان میں مشاورتی کمیٹی میں کئی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ امریکی جریدے فارن پالیسی سے گفتگو کرتے ہوئے ان ذمے داران نے واضح کیا ہے کہ مشاورتی کمیٹی کے کئی ارکان کو اچانک بدل دیا گیا ہے۔
پینٹاگان میں وائٹ ہاؤس کے رابطہ کار جوشوا وائٹ ہاؤس کی جانب سے بدھ کی دوپہر ارسال کیے گئے بیان میں دفاعی پالیسی کونسل سے اعلی سطح کے 11 مشیروں کی برطرفی سامنے آئی ہے۔ ان میں دو سابقہ وزرائے خارجہ ہنری کیسنجر اور میڈلین اولبرائٹ، ریٹائرڈ جنرل گیری روجڈ (جو نیول آپریشنز کے سربراہ رہ چکے ہیں) اور ایوان نمائندگان میں انٹیلی جنس کمیٹی کے نمایاں رکن جین ہارمن شامل ہیں۔
اس فہرست میں پینٹاگان میں آپریشنز کے سابق سینئر ذمے دار روڈی ڈی لیون کا بھی نام ہے جن کو سابق وزیر دفاع جیمز میٹس نے ایک اعلی منصب پر فائز کیا تھا۔
اسی طرح برطرفی کا شکار ہونے والوں میں ایوان نمائندگان میں اکثریت کے سابق لیڈر ایرک کینٹر اور سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں وزارت خزانہ کے سکریٹری کے طور پر کام کرنے والے ڈیوڈ میکرمک کا نام بھی شامل ہے۔
فہرست میں بل کلنٹن انتظامیہ کے اٹارنی جنرل جمی گوریلک، سینئر امریکی جوہری مذاکرات کار روبرٹ جوزف اور جارج بش کی حکومت میں قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر کراؤچ ٹُو کے بھی نام ہیں۔
یاد رہے کہ انتظامی کونسل جس کے نگراں پینٹاگان میں سینئر سیاسی ذمے داران ہیں ،،، وزارت دفاع کے اندر ایک طرح کا تھنک ٹینک ہے جو دفاعی پالیسی کے حوالے سے خود مختار حیثیت سے مشاورت اور سفارشات پیش کرتا ہے۔ اسی طرح کونسل میں سابق فوجی افسران اور وزرائے خارجہ کے علاوہ ارکان کانگرس، سینئر سفارت کار اور خارجہ پالیسی کے ماہرین شامل ہیں۔
مذکورہ امریکی ذمے داران کے مطابق موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے طویل عرصے سے اس کونسل کی تشکیل نو کی کوشش کی تا کہ ایسی شخصیات کو شامل کیا جا سکے جن کو صدر ٹرمپ کے ہمنوا کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل برطرف کیے جانے والے وزیر دفاع مارک ایسپر اور وزارت دفاع کے سکریٹری برائے پالیسی جیمز اینڈرسن کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اگرچہ انتظامی کونسل کا پینٹاگان میں پالیسی سازی کے عمل میں کوئی نمایاں کردار نہیں ہے تاہم وہ اعلی عسکری کمان کو امریکی قومی سلامتی کے لیے بعض اہم تزویراتی خطرات کے حوالے سے باقاعدگی کے ساتھ سفارشات پیش کرتی ہے۔