پاکستان میں جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن: فیصلہ کن کارروائی یا ریاکاری ؟ لبرل مغرب نواز مبصرین کو پھر بھی شک !
اسلام آباد 6مارچ ( آئی این ایس انڈیا/ایس او نیوز ) پاکستان میں جیش محمد اور دیگر مبینہ جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا گیا ہے۔ کئی لوگوں کے خیال میں یہ گزشتہ ادوار میں کی گئی ایسی کارروائیوں سے مختلف ہے لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاون محض ’دکھاوا‘ ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بھائی مولانا عبدالرؤف اور مسود اظہر کے بیٹے حماد اظہر سمیت مجموعی طور پر چوالیس افراد کو حفاظتی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ جیش محمد کا مرکز اور مسجد، جو بہاولپور میں قائم ہے، پہلے ہی مقامی انتظامیہ کے قبضے میں ہے۔ امکان ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو بھی حراست میں لے لیا جائے گا۔ تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران سامنے آنے کا امکان ہے۔
بہاولپور سے ذرائع نے بتایا کہ مسعود اظہر بیمار ہیں اور ممکنہ طور پر اسی لیے حکومت نے ان کو ابھی تک حراست میں نہیں لیا۔پاکستانی وزارتِ داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ در اصل ان کارروائیوں کی منظوری دسمبر سن 2018 میں ہی دے دی گئی تھی۔ اس کے برعکس ناقدین کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ نے حکومت کو مجبور کیا کہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پلوامہ حملے کے بعد امریکہ سمیت کئی ملکوں نے اسلام آباد حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے مستقبل میں ہونے والے اجلاسوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے بھی اسلام آباد کو ایسے اقدامات کرنے ہی تھے۔پاکستان نے آرمی پبلک اسکول پر سن 2014 میں ہونے والے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا، جس کا مرکزی نقطہ جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی تھا۔ لیکن کئی سیاستدانوں اور ناقدین کے خیال میں اس پروگرام پر درست انداز سے عمل نہیں کیا گیا۔ ماضی میں جماعت الدعوہ کے حافظ سعید کو بھی نظر بند کیا گیا لیکن بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے متعدد سیاست دان سمجھتے ہیں کہ یہ کارروائیاں ’بے معنی‘ ہیں۔پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کے خیال میں ایسے عناصر کے خلاف حقیقی معنوں میں کارروائی کبھی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ گرفتاریاں مصنوعی ہیں۔ جب تک ریاست اپنی پالیسی نہیں بدلے گی، ایسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔