پاکستان کے بجٹ میں کرونا سے نمٹنے کے لیے 112 ارب روپے مختص
واشنگٹن ،13/جون (آئی این ایس انڈیا) پاکستان کے سال دو ہزار بیس۔اکیس کے بجٹ میں کرونا وائرس کے خلاف اقدامات کے لئے مجموعی طور پر 112 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
"پوری دنیا کروناوائرس کی وجہ سے پریشان ہے، حتیٰ کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اور پاکستان نہ صرف کرونا کی وجہ سے پریشان ہے بلکہ اقتصادی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور ہم کرونا لاک ڈاؤن سے متاثرہ اپنی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے اقدامات کرتے رہیں گے۔"
یہ الفاظ ہیں پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے ریونیو، حماد اظہر کے جنہوں نے سال دو ہزار بیس۔اکیس کیلئے پاکستان کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا۔ اس بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے مگر ساتھ ہی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس بجٹ میں حکومت کی کوئی دوررس منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ تاجر طبقہ بھی بجٹ سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتا مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ہر بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، مگر اس مرتبہ کرونا وائرس کی وجہ سے قیمتوں کے مستحکم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کے اس بجٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ، پاکستان اکنامک ایڈوائزری کونسل اور نیشنل ایڈوائزری کمیٹی آف پلاننگ کمشن آف پاکستان کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلیری کہتے ہیں کہ روایتی طور پر ملک کے سالانہ بجٹ میں چار 'ڈیز' کا خیال رکھا جاتا ہے جن میں ڈیٹ سروسنگ یا قرضوں کی ادائیگی، ڈیفینس یا دفاع، تیسرا ڈی ڈے ٹو ڈے ایڈمنسٹریشن یا حکومت چلانا اور چوتھا ڈی ڈیویلپمنٹ یا ترقی ہوتا ہے۔ مگر اس مرتبہ اس میں کرونا وائرس کی وجہ سے چار ایل بھی شامل ہوگئے جن میں ایک لائیوز یا زندگیاں، دوسرے لائیولی ہوڈ یا روزگار اور تیسرے لاک ڈاؤن جو لگایا جائے تو بھی حکومت پیسے دے اور نہ لگائے تو بھی پیسے دے اور چوتھا ایل لوکسٹ یعنی ٹڈی دل۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس بجٹ کو کرونا سے متاثرہ صورتِ حال کا بجٹ قرار دے کر اس میں کوئی ترقیاتی اہداف بیان نہ کرتی، کیونکہ ان کا پورا کرنا ممکن ہی نہیں ہے؛ اور چند ہی ماہ میں تمام اعشاریے نیچے آتے دکھائی دیں گے، تو بجٹ کے اعدادوشمار کی کوئی حقیقت نہیں رہے گی۔
پاکستان کے اس بجٹ کے بارے میں ماہرین کی آرا مختلف ہیں مگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے حکومت کی مشکلات غیر معمولی ہیں اور اس کی وجہ سے ایک چھوٹی معیشت کا سکڑنا کوئی انہونی بات نہیں۔
پاکستان میں مائیکرو فنانس بنک کے سابق صدر اور مارکیٹنگ اور فنانس کے کنسلٹنٹ فائق حسین کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا ہی بجٹ آ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی آمدنی اور اخراجات کا فرق تین ہزار پانچ سو ارب روپے کا ہے اور اب زرِ مبادلہ اور برآمدات میں بھی کمی ہوئی ہے تو حکومت کے پاس مزید قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں خواہ یہ قرض سٹیٹ بنک سے لیا جائے یا عام بنکوں سے۔
ڈاکٹر سلیری کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ مزید قرضے لے مگر اس سے بھی ضروری یہ بات ہے کہ وہ قرضے سٹیل ملز جیسے ناکام ہوتے اداروں کو سنبھالنے کیلئے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کیلئے بیرونی قرضوں سے زیادہ اندرونِ ملک لئے گئے قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہے۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں پاکستان کو جی ٹوینٹی کے پروگرام کے تحت پیرس کلب کی جانب سے مہلت دی گئی ہے۔ یہ مہلت ایک سال کیلئے ہے اور ڈاکٹر عابد سلیری کہتے ہیں کہ یہ بھی کافی ہے حکومت کو کچھ وقت مل جائے گا۔