پاکستان: بجٹ کا عام آدمی کی زندگی سے تعلق نظر نہیں آتا: مبصرین
کراچی، 14/جون (آئی این ایس انڈیا) ایک جانب جہاں وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اپنی حکومت کے پیش کردہ بجٹ کے متوازن ہونے پر دلائل دیے ہیں تو وہیں متعدد معاشی ماہرین اور تاجر اسے اعداد و شمار کا روایتی گورکھ دھندا اور بجٹ کو عوامی مسائل کے حل سے کوسوں دور قرار دے رہے ہیں۔ معاشی تجزیہ کار اور کالم نگار ڈاکٹر فرخ سلیم نے وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر کی بجٹ تقریر کو ایک حقیقت اور سو افسانے سے تعبیر کیا ہے۔ فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ حماد اظہر نے گزشتہ حکومتوں کی تباہ کن معاشی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے چار شعبوں کی نشاندہی کی تھی جن میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، معیشت کو چلانے کے لیے بے پناہ قرضوں کا حصول، بجٹ خسارہ اور گردشی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم شامل تھا۔ تاہم فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے علاوہ دیگر تینوں شعبوں میں مسلسل تباہی کے اثرات اب بھی نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت تقریبا دو سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز سے کم کرکے 3 ارب ڈالرز تک کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے تاہم قرضوں کے حصول میں صورت حال مزید گھمبیر شکل اختیار کر گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تھی تو پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 30 ہزار ارب روپے تھا جو محض دو سال میں بڑھ کر 43 ہزار ارب روپے تک جاپہنچا ہے۔ ان کے مطابق اسی طرح 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو ملکی قرضوں کا کل بوجھ 6 ہزار ارب روپے تھا۔ جو مسلم لیگ (ن) کے پانچ سال میں 16 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔ اس شرح سے پیپلز پارٹی کی حکومت 5 ارب روپے روزانہ، نواشریف حکومت 8 ارب روپے روزانہ جب کہ تحریک انصاف کی حکومت روزانہ 18 ارب روپے کے نئے قرضے حاصل کر رہی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورت حال کس جانب گامزن ہے۔