بنگلورو: پینے کے پانی کی نامناسب سربراہی سے متعلق مسائل پر اعتراضات
بنگلورو،17؍جولائی(ایس او نیوز)پانی کی بے ترتیب اور بے وقت سربراہی کے معاملہ پر کل یہاں کارپوریشن کے جنرل باڈی اجلاس میں ہنگامہ ہوا۔ کارپوریٹر ایچ سی یوگیش نے آلودہ پانی سے بھری ایک بوتل دکھاتے ہوئے کہا ”کرناٹک اربن واٹر سپلائی اینڈ ٹرائنیج بورڈ (کے یو ڈبلیو ایس ڈی بی) کی جانب سے فراہم کیا جانے والا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔لیکن عوام اس آلودہ پانی کو پینے پر مجبور ہیں۔ یہ یہی پانی ہے جو شیشادری پورم وارڈ کے لوگوں کو پینے کے پانی کے نام پر 14جولائی کو فراہم کیا گیا۔وہاں رہنے والوں نے ضلعی انچارج وزیر کی کار کو رُکوا کر اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ لیکن عوام کا یہ منتخب نمائندہ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔“ انہوں نے کہا چوبیسوں گھنٹے پانی کی سپلائی کی اسکیم کو مارچ تک مکمل ہوجانا چاہئے تھا، لیکن اب تک تکمیل کو نہیں پہنچی ہے۔ حالانکہ اس کام کے لئے 98کروڑ روپئے جاری کئے گئے ہیں، لیکن اس کا 40 فی صد کام ہی ہو سکا ہے۔ پھر بھی افسران جھوٹے بیانات جاری کر رہے ہیں کہ 80فی صد کام ہو چکا ہے۔انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ رکن اسمبلی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کارپوریٹروں اور بورڈ کے افسروں کا ایک اجلاس رکھا،لیکن کانگریس اور جنتا دل سیکولر (جے ڈی ایس) کارپوریٹروں کو اس کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ انہوں نے سوال کیا ”کیا ہم انسان نہیں ہیں؟ وارڈز کے مسائل کے بارے میں ہم کس کے ساتھ تبادلہئ خیال کریں؟ رکن اسمبلی نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ جمہوریت کے خلاف ہے۔“ کے یو ڈبلیو ایس ڈی بی کے اسسٹنٹ انجینئر رمیش نے کہا ”وہ پائپ جو پانی لے جاتا ہے، وہ بارش کے پانی میں ڈوب گیا جس کی وجہ سے پینے کے پانی کی سربراہی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ تقریباً 13 اوور ہیڈ ٹینکوں کو پانی نہیں پہنچ سکا۔ اسی طرح اسمارٹ سٹی مشن کے تحت کاموں کے نفاذ کے دوران پینے کے پانی کے کچھ پائپوں کو نقصان بھی پہنچا۔ ہم اس کی مرمت کر رہے ہیں۔“ بلدیہ میں حکمران جماعت کے قائد چندرا بسپا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ شہر میں پینے کے پانی کی سپلائی کا مسئلہ ہے اور کہا”ہم اس کا کوئی مستقل حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رکن اسمبلی کو اجلاس بلانے کا اختیار ہے۔“کانگریس کارپوریٹر بی اے رمیش ہیگڑے نے کہا کہ اجلاس میں شیموگہ اسمارٹ سٹی لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائرکٹر کو مدعو کیا جانا چاہئے کیونکہ ہم اسمارٹ سٹی مشن کے تحت جاری غیر سائنٹفک کام کے سلسلے میں عوام کو جواب دینے کے قابل نہیں ہیں۔“