لکھنو میں منعقدہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں منظور کی گئیں متعدد تجاویز

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 6th February 2023, 4:35 PM | ملکی خبریں |

لکھنؤ، 6؍ فروری  ( ایس او نیوز/پریس ریلیز) دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں منعقدہ  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ میں  بہت سے پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی جن میں یونی فارم سول کوڈ اور ملک کے مختلف عدالتوں میں چل رہے مسلم پرسنل لا سے متعلق مقدمات کا جائزہ بھی شامل ہے۔بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی صدارت میں منعقدہ اس   میٹنگ میں بورڈ  میں ملک بھر سے مجلس عاملہ کے ارکان نے شرک کی جس میں  نائب صدور مولانا ارشد مدنی، مولانا فخر الدین اشرف،پروفیسر سید علی نقوی،  جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا فضل الرحیم مجددی، مولانا محمود مدنی، مولا نا سجاد نعمانی ، مولانا مصطفی رفاعی جیلانی، بیرسٹراسد الدین اویسی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، مولانا ولی فیصل رحمانی، ڈاکٹرقاسم رسول الیاس، کمال فاروقی، یوسف حاتم مچھالہ ایڈوکیٹ، مولانا سید بلال حسنی ندوی، مولانا عتیق احمد بستوی، شمشاد احمد ایڈوکیٹ، طاہر حکیم ایڈوکیٹ، ڈاکٹر مونسہ بشریٰ خصوصی طور پر شریک تھے۔

اس اجلاس میں شرکاء نے درج ذیل تجاویز منظورکیں:
۱- یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ ملک میں نفرت کا زہر پھیلا یا جارہا ہے اور اس کو سیاسی لڑائی کا ہتھیار بنایا جارہا ہے۔ یہ اس ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدین ، دستور کے مرتبین اور ملک کے اولین معماروں نے اس ملک کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، یہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب، قبائل، زبانوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والوں نے ملک کی خدمت کی ہے اور اس کو آگے بڑھانے میں یک ساں کردار اداکیا ہے۔ اگر یہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ ختم ہوگیا تو ملک کا اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا۔

اس لیے یہ اجلاس حکومت سے ،محب وطن شہریوں سے، قانون دانوں، سیاسی رہنمائوں  اور میڈیا کے لوگوں سے درد مندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ نفرت کی اس آگ کو پوری قوت کے ساتھ بجھانے کی کوشش کریں اور اس کو ہوا دینے سے بچیں، ورنہ یہ آگ آتش فشاں بن جائے گی اور ملک کی تہذیب ، اس کی نیک نامی، اس کی ترقی اور اس کی اخلاقی وجاہت سب کو جلاکر رکھ دے گی۔

۲- قانون انسانی سماج کو مہذب بناتا ہے، ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، مظلوموں کو انصاف فراہم کرتا ہے اور ان کے لیے حصول انصاف کی امید ہوتا ہے۔ لاقانونیت سماج کو انارکی میں مبتلا کردیتی ہے۔ ا س لیے حکومت ہو یا عوام ، اکثریت ہو یا اقلیت، برسر اقتدار گروہ ہو یا اپوزیشن، سرمایہ دار ہو یا غریب اور مزدور، سب کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں، لیکن اس وقت بدقسمتی سے ملک میں لاقانونیت کا ماحول بن رہا ہے، ماب لنچنگ ہو رہی ہے، ملزم پر کیس ثابت ہونے سے پہلے اس کو سزا دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جو مکانات دسیوں سال سے بنے ہوئے ہیں، جو حکومت اور انتظامیہ کی نظروں کے سامنے بنے ہیں اور جن سے قانونی واجبات بھی وصول کیے جاتے رہے ہیں، ان کو بلڈوزر کے ذریعے لمحوں میں زمیں بوس کردیا جاتا ہے۔ احتجاج کا دستوری حق استعمال کرنے والے اور پر امن طور پر اپنا موقف پیش کرنے والوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے اور جرم ثابت کیے بغیر مدتوں ان کو جیل میں رکھا جاتا ہے۔ یہ سب لاقانونیت کی بدترین شکلیں ہیں اور لاقانونیت عوام کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف ، بہر حال قابل مذمت ہے۔ اس کو روکنا حکومت کا اور تمام باشندگان ملک کا فریضہ ہے۔

۳- ملک کے دستور کی بنیاد مساوات ، انصاف اور آزادی پر ہے۔ ان اصولوں کو قائم رکھنا حکومت کی بھی ذمہ داری ہے اور عدلیہ کی بھی۔ اس لیے عدلیہ سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ کمزور   طبقات اور اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا جائزہ لے اور اپنا فریضہ منصبی ادا کرے۔ عدلیہ عوام کے لیے امید کی آخری کرن ہے۔ اگر یہ بھی مدہم پڑ جائے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی ہے۔

۴- ملک کے دستور میں شامل بنیادی حقوق میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے، اس میں پرسنل لازبھی شامل ہیں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرے۔ پرسنل لا کے ذیل میںمختلف گروہوں کے جو تشخصات ہیں، ان کو ختم کرکے کامن سول کوڈ کا نفاذ ایک غیر جمہوری عمل ہوگا۔  یہ اتنے بڑے متنوع اور مختلف مذاہب اور تہذیب کے حامل ملک کے لیے موزوں بھی نہیںہے اور مفید بھی نہیں ہے۔ اگر اس کو پارلی منٹ میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک کا اتحاد متاثر ہوگا، ملک کی ترقی میں رکاوٹ پید اہوگی اور اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے بورڈ کا یہ اجلاس جو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمایندوں پرمشتمل ہے، حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ارادے سے بازآجائے اور ملک کے جو حقیقی مسائل ہیں ان پر توجہ کرے۔

۵- عبادت گاہوں سے متعلق ۱۹۹۱ء؁ کا قانون خود حکومت کا بنایا ہوا قانون ہے، جسے پارلی منٹ نے پاس کیاہے، اس کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے، ورنہ پورے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہوجائے گی اور یہ ملک کے لیے بہت ہی بدقسمتی کی بات ہوگی۔ اس لیے حکومت اپنی ذمہ د اری اداکرے اور فرقہ پرست عناصر کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے۔

۶- اوقاف دینی وانسانی مقاصد کے لیے مسلمانوں کی جانب سے دی جانے والی املاک ہیں، جن کو شرعاً وقانوناً ان کے مقررہ مقاصد ہی پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ حکومت یا عوام کی طرف سے وقف کی جائداد پر قابض ہوجانا کھلے طور پر غصب ہے۔ خواہ یہ کسی مسلمان کی طرف سے ہو یا غیر مسلم کی طرف سے، یا ملک کے کسی شہری کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے، بہر حال یہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔

اس لیے بورڈ اوقاف کے سلسلے میں حکومت کے بعض نمایندوں کی طرف سے جاری کردہ ان بیانات پر انتہائی تشویش کااظہار کرتا ہے، جن میں مسلمانوں کو ان کے اوقاف سے محروم کرنے کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے اور حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی قدم سے باز رہے اور مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کی حفاظت کے لیے مقامی طور پر بھر پور کوشش کریں۔ افتادہ آراضی کی احاطہ بندی کرائیں۔ اوقاف کو ان کے مقررہ مقاصد، نیز جہاں ضرورت ہو وہاں ملت کے نونہالوں کے تعلیمی مقاصد کے لیے ان کو استعمال کریں۔

۷- بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کا مطلب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حوالے کرنا ہے۔ اس لیے بہ حیثیت مسلمان ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم شریعت کے قانون پر عمل کریں۔ عورتوں کے ساتھ انصاف، بوڑھوں کے ساتھ حسن سلوک، شادی بیاہ میں فضول خرچی سے پر ہیز اور سادگی کا لحاظ رکھیں۔ اپنے معاملات کو اپنے قاضیوں، مذہبی رہ نمائوں کے سامنے رکھ کر اپنے مسائل حل کریں۔ شریعت نے جن باتوں کو حرام اور گناہ قرار دیا ہے ان سے بچیں، چاہے قانون میں اس کی ممانعت نہ ہو، جیسے نشہ، نکاح کے بغیر مرد وعورت کا جسمانی تعلق، سود، ہم جنسی، شوہریا بیوی سے بے جاطریقہ پر پیسہ وصول کرنا، طلاق کے بعد بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا۔ یہ ساری باتیں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں اور نہ ملک کا قانون ہمیں ان پر مجبور کرتا ہے۔ چاہے قانون کسی خلاف  شریعت بات کی اجازت دیتا ہو اور اس میں کسی شخص کا فائدہ ہو، لیکن ایک مسلمان کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔

۸- بورڈ عام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نکاح کے لیے بورڈ کے مرتب کردہ نکاح نامے کا استعمال کریں، جس میںز وجین کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جس میںعاقدین کے لیے اس بات کی گنجایش رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے باہمی نزاعات کو حل کرنے کے لیے دارالقضاء یا محکمہ شرعیہ کو ثالث بنائیں۔ اگر سماج اس نکاح نامے سے فائدہ اٹھائے اور اس میں شامل ثالثی پر عاقدین دستخط کردیں تو اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ طلاق کے واقعات کم ہوں گے۔ عورتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی۔ اگر ان کے درمیان کوئی نزاع پید اہوگئی تو آسانی کے ساتھ کم وقت اور کم خرچ میں ان کے اختلافات حل ہوسکیں گے۔

۹- مذہب اور عقیدے کا تعلق انسان کے یقین اور ضمیر سے ہے۔ اس لیے کسی مذہب کو اختیار کرنے کا حق ایک فطری حق ہے۔ اسی بنا پر ہمارے دستور میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور ہر شخص کو کسی مذہب کو اختیار کرنے یا مذہب کی تبلیغ کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔ البتہ اس کے لیے زور زبردستی اور مالی تحریص ایک نامناسب بات ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں مختلف ریاستوں میں ایسے قوانین لائے گئے اور لائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، جن کا مقصد ملک کے شہریوں کو سرے سے اس حق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بات کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔

حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ تبلیغ مذہب کے لیے استعمال کیے جانے والے غیر قانونی طریقوں کو ضرور روکے، لیکن جو لوگ اپنی مرضی سے ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنا چاہتے ہیں یا پر امن طریقے پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

۱۰- ملک کے تعلیمی نظام کو دستورکی روح سے ہم آہنگ ہونا چاہئے،ماضی میں بڑی حد تک اس پر عمل ہوتا رہا ہے،نصاب تعلیم میں کسی ایک مذہب یا کسی ایک کلچر کوبڑھا کر بتانے سے احتیاط کی جاتی رہی ہے،اس طرح سوشل سائنس میں مختلف مذاہب کے پیشوائوں کا تعارف نصاب میں شامل رہا ہے اورتاریخ میں ہردور کی تاریخ کو نمائندگی دی گئی ہے لیکن حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی میں یہ باتیں مفقود ہیں، یہ بات مسلمانوں اوراقلیتوں کے لئے ناقابل قبول ہے اس لئے حکومت سے پرزوراپیل کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے نظام تعلیم کو دستور کے مزاج کے مطابق بنائے جس میں تمام مذاہب، تہذیبوں کا احترام ملحوظ ہو اورانصاف کے ساتھ ملک کی تاریخ پیش کی جائے۔

۱۱- بورڈ مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ دینی اوراخلاقی ماحول کے ساتھ ہرسطح کے تعلیمی ادارے اورلڑکیوں کے لئے خصوصی درس گاہیں قائم کرنے پر توجہ کریں تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے تقاضے پورے ہوں، لڑکیاں محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کریں اورطلبہ وطالبات انسانی جذبے کے تحت ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لائق بنیں۔

۱۲- بنیادی دینی تعلیم کے مکاتب بچوں کوصحیح راستے پر قائم رکھنے کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، ہرمسجد اورہرمحلے میں اس کا انتظام ہونا چاہئے اورکوشش کرنا چاہئے کہ کوئی مسلمان بچہ یا بچی بنیادی دینی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ اس لیے مسلمانوں سے خاص طورپر اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس پر بھرپور توجہ کریں تاکہ ہماری نئی نسل کا رشتہ دین واخلاق سے قائم رہ سکے۔

۱۳- آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ نے آسام کی حکومت کے ذریعہ کم عمری کے شادیوں کے تعلق سے مسلم خاندانوں کی گرفتاری کا جو سلسلہ شروع کیا وہ انتہائی قابل تشویش ہے ۔ بورڈ حکومت آسام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ جو معاملہ زیر بحث ہے اس میں فیصلہ آنے تک ان پر کوئی اقدام نہ کرے۔ اس سلسلے میں بورڈ اپنی لیگل کمیٹی کو مجاز کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرکے اسلام کا موقف بھر پورطریقے پر پیش کرے۔

ایک نظر اس پر بھی

ممبئی میں ڈی آر آئی کی بڑی کارروائی، 10 کروڑ روپئے کا غیر ملکی سونا ضبط، چار گرفتار

ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس (ڈی آر آئی) نے ممبئی میں سونے کی اسمگلنگ کے ایک بڑے ریکیٹ کا پردہ فاش کیا ہے۔ ایک سرچ آپریشن کے دوران ڈی آر آئی نے 10.48 کروڑ روپئے کا سونا، چاندی، نقدی اور کئی مہنگے سامان ضبط کیے ہیں جبکہ دو افریقی شہریوں کے ساتھ چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

کانگریس کے منشور سے مودی گھبرا گئے ہیں، ذات پر مبنی مردم شماری کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی: راہل گاندھی

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے دہلی کے جواہر بھون میں ’ساماجک نیائے سمیلن‘ سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے پی ایم مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ خود کو ’دیش بھکت‘ کہتے ہیں وہ 90 فیصد لوگوں کے لیے ’نیائے‘ (انصاف) کو یقینی بنانے والی ذات ...

اجیت پوار اور ان کی اہلیہ کو مہاراشٹر اسٹیٹ کوآپریٹو بینک گھوٹالہ کیس میں ’کلین چٹ‘ مل گئی

 مہاراشٹر کے ڈپٹی سی ایم اجیت پوار اور ان کی اہلیہ سنیترا کو بڑی راحت ملی ہے۔ اقتصادی جرائم ونگ نے مہاراشٹر اسٹیٹ کوآپریٹیو بینک گھوٹالے میں ان دونوں کو کلین چٹ دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے بھتیجے روہت پوار سے وابستہ کمپنیوں کو بھی کلین چٹ دے دی گئی ہے۔

ای وی ایم-وی وی پیٹ معاملہ: ’ڈیٹا کتنے دنوں تک محفوظ رکھتے ہیں‘؟ الیکشن کمیشن سے سپریم کورٹ کا سوال

ای وی ایم- وی وی پیٹ معاملے پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے مزید وضاحت طلب کی ہے۔ ان وضاحتوں پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے عہدیدار سے دوپہر 2 بجے تک جواب دینے کے لیے کہا ہے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے دریافت کیا کہ مائیکرو کنٹرولر کنٹرول یونٹ میں ہے یا وی وی ...

کانگریس و دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی شکایت کے بعد الیکشن کمیشن کا پی ایم مودی کے بیان کی جانچ کا اعلان

راجستھان کے بانسواڑہ میں پی ایم مودی کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان پر ملک و بیرونِ ملک ہو رہی شدید تنقید کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے جانچ کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر سے متعلق شکایت موصول ہوئی ہیں اور وہ شکایات کمیشن کے زیر غور ہیں۔ ...