کرناٹک میں این آر سی کے نفاذ کا فیصلہ اسی ہفتے: ریاستی وزیر داخلہ بسواراج بومئی کا اعلان
بنگلورو،3؍اکتوبر(ایس او نیوز) ملک گیر پیمانے پر نیشل رجسٹر آف سٹی زن شپ (این آر سی) لاگو کرنے کے متعلق مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اعلان کے ایک دن بعد ہی حکومت کرناٹک نے ریاست میں اس کے نفاذ کی تیاری کااشارہ دیا ہے۔ ریاستی وزیر داخلہ بسواراج بومئی نے کہا ہے کہ کرناٹک میں این آر سی ضرور لاگو کیا جائے گا۔ انہوں نے ریاست میں این آر سی لاگو کرنے کے متعلق ریاستی حکومت کی پابندی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر وہ محکمہ داخلہ اور دیگر سرکاری محکمے جو این آر سی کے عمل کا حصہ ہو سکتے ہیں ان کے اعلیٰ افسروں کا ایک اجلاس طلب کریں گے اور مرکزی حکومت کی طرف سے این آر سی کو ملک گیر پیمانے پر لاگو کرنے کے لئے کی گئی پہل کے مطابق کرناٹک میں بھی این آر سی لاگو کرنے کے لئے تیاریو ں کی شروعات کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی بعض ریاستوں نے این آر سی کے نفاذ پر رصامندی ظاہر کی ہے۔ اس وجہ سے ریاستی حکومت بھی اس قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے اعلیٰ عہدیداروں سے انہوں نے کہا ہے کہ این آر سی او آسام اور ملک کی دیگر ریاستوں میں کن بنیادوں پر لاگو کیا جارہا ہے اس کا جائزہ لیں اور کرناٹک میں اس کا نفاذ کیسے کیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں انہیں رپورٹ پیش کریں۔ ایک ہفتے کے اندر انہیں یہ رپورٹ مل جائے گی اس کی بنیاد پر اعلیٰ افسروں کی میٹنگ میں این آر سی کے نفاذکے امکانا ت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کیا جائے گا کہ ریاست میں این آر سی کا نفاذ ہونے کے بعد دستاویزات کی جانچ اور شہریوں کے اندراج کا سلسلہ کب سے شروع ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انہوں نے دو مرتبہ اعلیٰ افسروں کے ساتھ این آر سی کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ بومئی نے کہا کہ بنگلورو سمیت ریاست کے مخؒلف شہروں میں بیرون ممالک سے ملک میں غیر قانونی طرو پر داخل ہو کر چھپے ہوئے افراد کی تعدار کافی زیادہ ہے اس لئے ریاستی حکومت نے یہ محسوس کیا ہے کہ آسام اور دیگر ریاستوں کے طرز پر کرناٹک میں بھی این آر سی کا نفاذ بلا تاخیر ہونا چاہئے۔ سابقہ سدارامیا حکومت کی طرف سے ریاست بھر میں کروائے گئے ذات پات سروے کو ریاستی حکومت کی طرف سے مسترد کردئیے جانے کی خبرو ں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بومئی نے کہا کہ اس کے بارے میں حکومت نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اس رپورٹ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہی یہ طے کیا جائے گا کہ اس رپورٹ کو قبول کیا جائے یا نہیں -