این آر سی کے معاملے پر بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان لفظی جنگ
پٹنہ،05 /ستمبر(ایس او نیوز/ آئی این ایس انڈیا) بہار میں این آر سی معاملے پر حکمران جنتا دل یونائیٹڈ اور بی جے پی کے درمیان لفظی جنگ تیز ہوتی جارہی ہے۔ جب سے آسام میں این آر سی کی فہرست آئی ہے تب سے ایک طرف بی جے پی کے رہنما بہار میں بھی بنگلہ دیشی دراندازوں کی تعداد لاکھوں میں بتاتے ہیں اور یہاں بھی این آر سی نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس پورے تنازعہ کی شروعات گزشتہ ہفتے کے روز جیسے ہی آسام کے فہرست آئی اس کے بعد جنتا دل یونائیٹڈ کے قومی نائب صدر پرشانت کشور نے کہا کہ غلط طریقے سے کرائے گئے این آر سی کی وجہ سے آج لاکھوں لوگ اپنے ہی ملک میں غیر ملکی ہو گئے ہیں اور اسی طرح پیچیدہ موضوع کو بغیر سوجھ بوجھ کے نافذکرنا اور وہ بھی صرف سیاسی فائدے کے لئے اس کا یقینی طور پر نتائج غلط ہوگا۔ اس کے بعد باری آر ایس ایس سے منسلک اور اب راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ پروفیسر راکیش سنہا نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک پول شروع کیا کہ کیا بہار کے سیمانچل میں این آر سی ہونا چاہئے۔ ان کا ماننا ہے کہ دراندازی ایک طرح کی خاموشی حملہ ہے جو کہ بہار کے کچھ خاص اضلاع ارریہ، پورنیہ، کٹیہار اور کشن گنج میں صاف دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے وہاں کا سماجی ماحول اور سیکولر جمہوریت بھی کمزور ہوا ہے۔یہ لازمی تھا کہ بی جے پی کے لیڈر جنتا دل یونائیٹڈ کے لیڈروں سے اس معاملے پر اتفاق نہیں رکھتے لیکن اگر جے ڈی یو کے لیڈرکچھ بولیں گے تواس کا وہ جواب بھی دیں گے۔ لیکن بدھ کو نتیش کابینہ کے وزیر بھی اس تنازعہ میں کود گئے۔بی جے پی لیڈر ونود سنگھ نے کہا کہ بہار میں تقریبا 40 لاکھ درانداز ہیں اور این آر سی نافذ کرکے انہیں نکالا جانا چاہئے۔ ونود سنگھ جو خود کٹیہار ضلع سے آتے ہیں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیشی در انداز غیر قانونی طور پر آکر بس گئے ہیں اور یہ دن رات جرم میں لگے رہتے ہیں۔ اس پر جواب دینے کی باری جنتا دل یونائٹیڈ کی تھی اور وزیر صنعت شیام رجک نے کہا کہ بہار میں این آر سی کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ یہاں پر کوئی درانداز نہیں ہے۔جے ڈی یو اور بی جے پی کے درمیان تو تو، میں میں تیز ہو گئی تو معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی ذمہ داری نائب وزیر اعلی سشیل مودی نے اپنے اوپر لی اور انہوں نے اس مسئلہ کے لئے کانگریس پارٹی کے اوپر ٹھیکرا پھوڑ دیا۔ مودی نے کہا کہ جموں و کشمیر اور آسام ایسی سرحدی ریاستیں ہیں، جہاں کانگریس حکومتوں کی لاپرواہی کی وجہ سے کئی دہائیوں تک پڑوسی ممالک سے بڑے پیمانے پر دراندازی جاری رہنے سے ان ریاستوں کی ثقافت پر برا اثر پڑا، مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع گنوانے پڑے اور ملک کی سلامتی کو شدید چیلنجز ملنے لگیں۔ مودی کے مطابق 1979 میں آسام کے طلبا نے دراندازوں کے خلاف وسیع تحریک کر کے مرکزی حکومت کو مسئلے کا حل نکالنے کے لئے مجبورکیا تھا۔ این ڈی اے حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے میں لگی ہے۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں دراندازوں کی شناخت کے لئے این آر سی کی جو فہرست تیار کی گئی ہے، اس کی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لئے کئی سطح پر اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور آسام میں این آر سی کے معاملے پر کانگریس اور آر جے ڈی جیسی پارٹیاں سیاسی مفاد سے اوپر نہیں اٹھ پا رہی ہیں۔