قومی سطح کی سرکاری ایجنسیوں کے بے جا استعمال کی ایک اور بدنما مثال، بنگلوروکے جی ہلی اور ڈی جے ہلی تشدد کی جانچ این آئی اے کے سپرد
بنگلورو،23؍ستمبر(ایس او نیوز) بنگلورو کے دیو رجیون ہلی اور کاڈو گنڈنا ہلی علاقوں میں 11/اگست کی شب ایک توہین آمیز فیس بک پوسٹ کے خلاف احتجاج کے دوران پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی جانچ کو کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے سپرد کردیا ہے۔
این آئی اے نے اس سلسلہ میں منگل کے روز دو الگ الگ ایف آئی آر درج کرتے ہوئے معاملہ کی جانچ شرو ع کردی ہے۔این آئی اے کے عہدیداراوں نے بتایا کہ آتشزنی اور عوامی املاکو نقصان پہنچانے کے الزام میں دو الگ الگ ایف آئی آر ملزموں پر درج کئے گئے ہیں۔
این آئی اے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ معاملہ کی جانچ کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ این آئی اے کے ایک انسپکٹر جنرل درجے کے عہدیدار کو اس کی جانچ کیلئے بنگلورو روانہ کیا گیا ہے۔اب تک اس معاملہ کی جانچ بنگلورو سٹی پولیس کے تحت آنے والی سنٹرل کرائم برانچ (سی سی بی) کی طرف سے کی جا رہی تھی اور اس سلسلہ میں 380سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر کے قید میں رکھا گیا ہے۔ ان تمام پر انسدادغیر قانونی سرگرمی قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اب اچانک ریاستی بی جے پی حکومت نے اس معاملے کی جانچ این آئی اے کے سپرد کردی ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ عوام بالخصوں ریاست کے مسلم طبقہ میں خوف بٹھانے کے مقصد سے لیا گیا ہے۔
کے جی ہلی اور ڈی جے ہلی میں فیس بک پر حضورؐ کی توہین کرتے ہوئے شائع کئے گئے ایک پوسٹ کے خلاف احتجاج سے جڑا ہواتھا۔ بدقسمتی سے یہ احتجاج پرتشدد رخ اختیار کرگیا اور اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر شرپسندوں نے علاقے میں بڑے پیمانے پر تشدد برپا کیا اور رکن اسمبلی کے گھر کو نشانہ بنایا۔ پرتشدد واقعات کے بعد اس کے الگ الگ پہلو سامنے آئے۔ ایک پہلو احتجاج کا تھا تو دوسرا پہلو علاقے کے سیاستدانوں کی آپسی رقابت کا تو اس کے بعد منشیات مافیہ کا۔ لیکن اب اس معاملہ کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے جس طرح حکومت نے معاملے کو این آئی اے کے سپرد کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ حکومت کا مقصد اس معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اصل ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانا نہیں بلکہ اسے دہشت گردی کا لیبل لگا کر اس کے ذریعے مسلمانوں پر دہشت گردی کا داغ لگانا ہے۔
11/ اگست کو جو واقعات پیش آئے وہ خالص مقامی نوعیت کے رہے۔ اس میں اگر کوئی سیاست بھی ہوئی ہے تو وہ بھی بالکل مقامی سطح کی ہے جس کی جانچ مقامی پولیس کافی اچھے طریقے سے کر رہی تھی لیکن اب اچانک اس مقامی سطح کے معاملہ کی جانچ ایک قومی سطح کی ایجنسی کے ذریعے کروانے ایڈی یورپاحکومت کا فیصلہ ان خدشات کو جنم دیتا ہے کہ حکومت اپنے فائدے کیلئے سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال کرنے پر اتر آئی ہے۔ سی سی بی نے اب تک اس معاملے میں جس طرح سے جانچ کی اس میں بے قصور ضرور گرفتا ر ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تشدد کے سازشی پہلو کو بھی بے نقاب کرنے میں پیش رفت ہو سکی تھی۔ لیکن اب جبکہ معاملہ این آئی اے کے سپرد ہو چکا ہے اور یو اے پی اے کے تحت این آئی اے نے ایف آئی آر درج کرلی ہیں جس سے یہ خوف پیدا ہوگیا ہے کہ اس سلسلہ میں گرفتار بے قصور نوجوانوں کے ساتھ جلد انصاف ہو نے والا نہیں ہے۔ کے جی ہلی اور ڈی جے ہلی کا سارا معاملہ اگر دیکھا جائے تو اس میں ہر طرف سے مسلمانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔
پہلے تو کسی شرپسند نے فیس بک پر حضورؐ کی توہین کردی۔ اس کے بعد جب مسلمانوں نے اس کے خلاف شکایت درج کرنی چاہی تو شکایت درج کر کے ملزم کوگرفتار کرنے کی بجائے پولیس نے اسے بچانے کی کوشش کی۔ اس پر جب احتجاج نے طول پکڑا تو شہر کے دو اہم مسلم علاقے اس کی لپیٹ میں آگئے۔
تشدد کے دوران پولیس تھانوں کے باہر ہونے والی آتشزنی میں مسلمانوں کی متعدد گاڑیوں کو پھونک دیا گیا۔ تشدد کو روکنے کیلئے کی گئی پولیس فائرنگ میں تین مسلمانوں کی موت ہوئی۔ تشدد تھمنے کے بعد سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف خوفنا ک یو اے پی اے قانو ن کی بلا ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اب ایک اور بار حکومت نے اس معاملے میں سرکاری ایجنسیوں کے غلط استعمال کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مقامی سطح کے معاملہ کو قومی سطح کی ایجنسی کے سپرد کیا ہے۔