مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کے لئے مودی حکومت اور بی جے پی پر کڑی تنقید۔۔۔ نیویارک ٹائمز کا اداریہ
مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بیف کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں سر زد ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے نیو یارک ٹائمز نے17جولائی کو جو اداریہ تحریر کیاہے اس کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
سال 2014 بھاری اکثریت کے ساتھ نریندر مودی نے بحیثیت وزیر اعظم جو جیت حاصل کی تھی اس کے پیچھے ان کے وہ وعدے تھے جس میں ملک کے معاشی ذرائع کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ایک روشن مستقبل تعمیر کرنے کی بات کی گئی تھی اور انہوں نے بی جے پی کے ہندو قومیت پرستی کے نظریے سے اپنی وابستگی کو کمزور کرکے دکھایا تھا۔
لیکن مسٹر مودی کی قیادت میں(ملک کی) ترقی کی رفتار کم ہوگئی ہے۔نوکریوں کا وعدہ حقیقت میں بدل نہیں پایا ہے۔اور جو کچھ کھل کر سامنے آیا ہے وہ زہرناک عدم رواداری ہے جو ایک سیکیولر ملک کی ان بنیادوں کو ہلاکر رکھنے والی ہے جو کہ اس ملک کے بانیوں کا تخیل ہے۔
جب سے مسٹرمودی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے بیف کھانے والے یا ہندوؤں کی جانب سے مقدس مانے جانے والے جانورگائے کا احترام نہ کرنے والوں پر ہجوم کے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس میں زیادہ تر مرنے والے مسلمان ہیں۔ مسٹر مودی نے گزشتہ مہینے ہندوستانی حکومت کی طرف سے مذبح کے لئے گائیں فروخت کرنے پر پابندی جسے سپریم کورٹ نے معطل کردیا ہے، لگانے کے کچھ ہی دنوں بعد (انسانوں کو) قتل کیے جانے کے خلاف بیان دیا تھا۔ (مویشیوں کی فروخت پر) ایک ایسی پابندی جو ثقافتی رسوائی کا باعث ہے، وہ سب سے زیادہ مسلمانوں اور کم ذات کے ہندوؤں کے لئے مصائب کا سبب بن جاتی جو کہ روایتی طور پر گوشت اور چمڑے کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔
اس سے مسٹر مودی کے ملازمتیں، معاشی ترقی اور بر آمدات کو بڑھاوا دینے کی مفروضہ ترجیحات کو بھی دھچکا لگتا ہے۔ 16بلین ڈالر کی اس انڈسٹری سے لاکھو ں افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے اور گزشتہ سال(اس انڈسٹری سے) 4بلین ڈالر کی ایکسپورٹ آمدنی ہوئی ہے۔
زیادہ پریشان کن تو ان کی پارٹی کی طرف سے ایک جنگجو سادھویوگی آدتیہ ناتھ کو ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی اوربڑی تعداد میں مرکزی لیڈر شپ کے لئے افراد فراہم کرنے والی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نامزد کرنے کا فیصلہ تھا۔مسٹر آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے بارے میں کہاتھا:"دو پاؤں والے جانوروں کی فصل جسے ہمیں روکنا ہی ہوگا ۔"اور ایک ریالی کے دوران چیختے ہوئے کہا تھاکہ "ہم سب ایک مذہبی جنگ(دھرم یدھ) کی تیاری کررہے ہیں!"
اس صورتحال سے تجزیہ نگار نیرج چودھری کو یہ تبصرہ کرنا پڑا: "ہندوستان دائیں بازو (مذہبی شدت پسندی) کی طرف جارہاہے۔کیا ہندوستان مزید دائیں طرف آگے بڑھتا ہے اور مودی اعتدال پسند(ماڈریٹ) نظر آنے لگتے ہیں، میرے خیال میں یہ(آنے والا) وقت ہی بتانے والا ہے۔ منگل کے دن ہندوستان کے فلم سنسر بورڈنے جس کی قیادت بی جے پی کے ایک جغادری لیڈر کررہے ہیں، بظاہر مودی کو تحفظ دینے اور پارٹی کو تنقید سے بچانے کے لئے یہ فیصلہ دیا کہ ہندوستان کے مایہ نازسپوت اور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین پر بنی ڈاکیومنٹری فلم سے "گائے"، "ہندو انڈیا،"ہندتوا ویو آف انڈیا" مطلب ہندو نیشنلزم اور "گجرات " جہاں مودی وزیر اعظم رہتے ہوئے 2002 میں بھیانک مسلم مخالف فسادات ہوئے تھے، جیسے الفاظ جب تک نکالے نہیں جائیں گے تب تک اسے عوامی نمائش کے لئے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ ہندو جنونیوں کی طرف سے ایک مضحکہ خیز اقدام لگ سکتا ہے۔ اگرچہ کہ یہ مودی کے انڈیامیں ہونے والے دیگر معاملات جیسا نہ ہو، اور اس کے اثرات (دیگر اقدامات کی طرح) ہندوستان کی جمہوریت کے لئے کپکپی طاری کرنے والے نہ ہوں۔لیکن یہی وہ مقام ہے مودی نے جہاں ملک کو لاکھڑا کیا ہے جو (اس بار) 15اگست کو اپنی آزادی کے سال پورے ہونے کا جشن منا رہا ہے۔
(مہمان اداریہ کے اس کالم میں دوسرے اخبارات کے ادارئے اوراُن کے خیالات کو پیش کیا جاتا ہے ، جس کا ساحل آن لائن کے ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)