آنگ سان سوچی ’مجرم‘قرار،4 ؍ سال قید کی سزاسنائی گئی
واشنگٹن ، 7؍دسمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) میانمار کی ایک خصوصی عدالت نے ملک کی معزول سربراہ آنگ سان سوچی کو دو مقدمات میں ۴؍ سال قید کی سزا سنائی ہے۔سوچی کو یہ سزا اشتعال انگریزی اور کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کا مجرم قرار پانے پر سنائی گئی ہے۔خصوصی عدالت نے میانمار کے سابق صدر ون مینٹ کو بھی چار سال کی سزا دی ہے۔ اطلاع کے مطابق میانمار کی جنتا(فوج) کے ترجمان زا من تان نے کہا ہے کہ آنگ سان سوچی کو دفعہ ۵۰۵؍ (بی) کے تحت دو سال اور نیشنل ڈیزاسٹر لا کے تحت دو سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ان کے بقول سابق صدر ون مینٹ کو بھی انہی الزامات کے تحت ۴؍ سال کی سزا سنائی گئی ہے البتہ انہیں ابھی جیل نہیں لے جایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سزا پانے والے اس وقت دارالحکومت نیپی تاؤ میں موجود ہیں اور وہ وہیں سے دیگر الزامات کا سامنا کریں گے۔ البتہ انہوں نے اس سے متعلق مزید تفصیل نہیں بتائی۔ خیال رہے کہ میانمار میں یکم فروری کو فوج نے ۷۶؍ سالہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اہم لیڈروں کو قید کر دیا تھا۔اطلاع کے مطابق آنگ سان سوچی کو جن دو کیس میں سزا سنائی گئی ہے ان میں سے ایک کیس غلط یا اشتعال انگیز معلومات پھیلانے اور دوسرا کورونا وائرس کی پابندیوں کو توڑنے سے متعلق تھا۔اشتعال انگیزی سے متعلق کیس میں ان پر الزام تھا کہ ان کی اور دیگر لیڈروں کی گرفتاری کے بعد ان کی پارٹی کے فیس بک پیج سے کئی (اشتعال انگیز) بیانات پوسٹ کئے گئے۔ جبکہ گزشتہ سال نومبر میں انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کئی کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کی تھی۔
یہ انتخابات آنگ سان سوچی کی پارٹی نے جیتاتھا جبکہ فوج کی اتحادی پارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس پر انہوں نے انتخابات میں دھوکہ دہی کا الزام لگایا تھا۔ البتہ آزاد الیکشن مشاہدین کو اس سلسلے میں بڑی بے ضابطگی کے شواہد نہیں ملے تھے۔ یاد رہے کہ سوچی کے ٹرائل سے میڈیا کو دور رکھا گیا تھا جبکہ سوچی کے وکلا پر بھی میڈیا سے بات کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔خصوصی عدالت میں سوچی کے وکلا نے اشتعال انگیزی کے الزامات کو مسترد کیا۔ البتہ استغاثہ نے سوچی کی پارٹی کے فیس بک بیانات کو بطورِ ثبوت پیش کیا۔ سماعت کے دوران وکیل دفاع نے اعتراض کیا کہ سوچی اور سابق صدر ون مینٹ ان بیانات کیلئے ذمہ دار نہیں ہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی قید میں تھے۔خصوصی عدالت کا یہ فیصلہ ایک قانونی عہدیدار نے سنایا جنہوں نے حکام کی طرف سے سزا کے ڈر سے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔واضح رہے کہ فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے ۱۰؍ ماہ بعد بھی اس کی مخالفت جاری ہے اور اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ سوچی کی سزا صورتِ حال مزید کشیدہ کر سکتی ہے۔اتوار کو بھی مظاہرین نے فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور آنگ سان سوچی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
آنگ سان سوچی کون ہیں؟
۷۶؍ سالہ آنگ سان سوچی ملک کی آزادی کے ہیرو جنرل آنگ سان کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی کریئر کا باقاعدہ آغاز ۱۹۸۸ءمیں کیا اورنیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نامی پارٹی قائم کی۔ وہ ملک میں فوجی حکومت کے خلاف ایک توانا آواز بن کر ابھریں اور ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کی۔ ۱۹۹۰ء میں این ایل ڈی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی لیکن فوجی حکومت نے اقتدار ان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ سوچی کو ۱۹۹۱ء میں ملک میں جمہوریت کے فروغ کیلئے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا جو نظر بند ہونے کی وجہ سے ان کے بیٹے نے وصول کیا۔ ۲۰۱۰ء میں ان نظر بندی ختم ہوئی جبکہ ۲۰۱۶ء میں وہ اقتدار میں آئیں لیکن ۲۰۱۷ء میں رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے سبب ان پر تنقیدیں ہوئیں اور ۲۰۱۹ء میں انہیں عالمی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ ۲۰۲۰ء وہ پھر الیکشن جیت گئیں لیکن فروری ۲۰۲۱ء میں انہیں برطرف کر دیا گیا۔