مہاراشٹراکے مسلمانوں نے زکوٰۃ کی رقم سے سرکاری اسپتال کو عطیہ میں دیاآئی سی یو یونٹ۔ وزیر اعلیٰ نے کی مسلمانوں کی ستائش
ممبئی،28؍مئی (ایس او نیوز) ایچل کرنجی مہاراشٹرا کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ کپڑے تیار کیے جاتے ہیں اسی لئے اس شہر کو ’مانچسٹر آف مہاراشٹرا‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
2.88لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں 78.32فی صد آبادی ہندوؤں کی ہے۔ جبکہ 15.98فی صد مسلمان رہتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا عام پیشہ کپڑا سازی ہے۔جب سے کووِڈ وباء پھیلی ہے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لئے سہولت نہ ہونے سے بڑی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ یہاں پر واقع اندراگاندھی میموریل (آئی جی ایم) ہاسپٹل میں بھی مریضوں کے علاج کے لئے درکار دیگر سہولتو ں کے علاوہ آئی سی یو یونٹ بھی نہ ہونے سے عوام کو بڑی دشواری پیش آرہی تھی۔خیال رہے کہ پورے مہاراشٹرا میں کووِڈ نے قہر مچارکھا ہے اس وباء کے دور میں بھی سیاست داں حکومت گرانے اور بچانے کے کھیل میں الجھے ہوئے ہیں۔یا پھر سوشیل میڈیا پر فرقہ وارنہ اشتعال انگیزی کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے مریضوں کے علاوہ مہاجر مزدوروں کی مشکلات میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ایسے بحرانی دور میں ایچل کرنجی نامی ایک چھوٹے سے شہر سے مسلمانوں نے رمضان کی زکوٰۃ اور صدقات کومفاد عامہ کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور 36لاکھ روپے کی بھاری رقم اکٹھا کرکے ایک جدید سہولتوں والا آئی سی یو یونٹ اندراگاندھی میموریل ہاسپٹل کو عطیہ میں دے دیا۔ جس میں علاج کے انتظامات والے10 بستروں کا ایک وارڈ شامل ہے۔
اس شہر کے ایک باشندے اَتُل نے بتایا کہ:”آئی جی ایم ہاسپٹل بہت ہی بدحالی کا شکار تھا۔ضروری آلات، اسٹاف اور دیگر سہولتیں موجود نہ رہنے کی وجہ سے مریض وہاں جانے سے خوف کھاتے تھے۔ حالانکہ ابھی ایچل کرنجی میں کووِڈ 19کے زیادہ معاملات سامنے نہیں آئے ہیں، لیکن آئندہ دنوں میں مریضوں کی تعداد بڑھنے کا امکان موجود ہے۔اب یہ جو نئی سہولت فراہم کی گئی ہے اس سے ان غریب مریضوں کو بڑا فائدہ ہوگا جو پرائیویٹ اسپتالوں کا خرچ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔“
مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے ایچل کرنجی کے مسلمانوں کے اس کارخیر اور بہترین عملی اقدام کی دل کھول کر ستائش کی ہے۔انہوں نے ایک ویڈیوکانفرنس پیغام میں کہا: ”ایچل کرنجی کے مسلمانوں نے اس ملک کے دوسرے لوگوں کو ایک راستہ دکھایا ہے۔اب تک ہم نے پوری ہمت اور صبر کے ساتھ کورونا وائرس کو قابو میں کیا ہے۔آئندہ اس کے لئے عوام کی شرکت بھی ضروری ہوگئی ہے۔مسلم طبقے نے اس کی بہترین مثال قائم کی ہے۔اور بتادیا ہے کہ رمضان کا تہوار اس طرح بھی منایا جاسکتا ہے۔“