22؍جنوری کا بنگلورو بند ملتوی، ڈی جے ہلی کے جی ہلی کیسوں میں ضمانتوں کی شروعات کے بعد تنظیموں کا اعلان
بنگلورو،20؍جنوری(ایس او نیوز) بنگلورو شہر کے ڈی جے ہلی اور کے جی ہلی تشدد کے سلسلہ میں گرفتار نوجوانوں کی رہائی کے لئے فوری اقدامات پر زور دینے کے لئے کرناٹک کی متعدد تنظیموں کی طرف سے 22جنوری کو بندمنانے کا جو اعلان کیا گیا تھا اسے ان تنظیموں نے ٹال دیا ہے۔
منگل کے روز طلب کی گئی ایک ہنگامی اخباری کانفرنس میں یہ اعلان تمام تنظیموں اور علمائے کرام کی طرف سے جمعیت العلماء کرنا ٹک کے صدر مفتی افتخار قاسمی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بند کے اہتمام کی آواز کی بنیاد ی مقصد یہی تھا کہ ڈی جے ہلی اورکے جی ہلی علاقے سے گرفتار نوجوانوں کی رہائی پر زور دیا جائے لیکن اسی درمیان یہ خوش آئند خبر سامنے آئی ہے کہ ان علاقوں سے گرفتارنوجوانوں میں سے 24کی ضمانت منظور کی جا چکی ہے اور ایک رہا بھی کردیا گیا ہے۔ اس لئے بند کی آواز دینے والی تنظیموں نے اس امر کو ایک خوش آئند شروعات مان کر مجوزہ بند کو موخر کردینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختلف اداروں اور انجمنوں کی طرف سے بند منانے کا جو اعلان کیا گیا تھا ممکن ہے اس کے سبب ہی حکام میں یہ ہلچل پیدا ہوئی اور اس کے سبب علاقوں سے گرفتار نوجوانوں کی رہائی کے لئے امید کی کرن جگی ہے۔ایک نوجوان کی رہائی دوسروں کی رہائی کے لئے راستہ آسان کرسکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں امید ہے کہ اور بھی نوجوانوں کی ضمانت ہو گی اورزیادہ سے زیادہ کو رہائی نصیب ہو گی۔
مفتی افتخار نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اگر نوجوانوں کی رہائی کا سلسلہ جاری رہنے کی بجائے دوبارہ رک گیا تو اس کے بعد کس طرح کی احتجاجی حکمت عملی اپنانی ہے اس کے بارے میں باہمی مشورے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال موجودہ حالات کے تناظر میں جمعہ کے روز کسی بند کی ضرورت نہیں ہے۔ اس موقع پرجمعہ مسجد شیواجی نگر بنگلورو کے امام وخطیب مولاناعبد القادر شاہ واجد ابولعلائی، مولانا اعجاز احمد ندوی، خطیب وامام مسجد چارمینار، مولانا ذوالفقار رضا نوری،خطیب وامام، مرکز اہلسنت جامعہ حضرت بلال، مفتی شمس الدین بجلی، سکریٹری جمعیت العلماء کرناٹک، یوسف کنہی، جماعت اسلامی ہند، تفہیم اللہ معروف، تنویر احمد، محب اللہ امین، مسعود عبد القادر اور دیگر عمائدین موجود تھے۔
بند سے فائدہ نہیں نقصان ہو تا: بنگلورو شہر میں 11اگست 2020کی شام ہو ئے پرتشدد واقعات کے سلسلہ میں پولیس کی کارروائی میں سینکڑوں نوجوانوں کی گرفتاری اور ان میں بڑی تعداد میں بے قصوروں کا ہونا ہر ایک کے لئے اس وقت سے ہی تشویش کا موضوع رہا ہے۔ ان نوجوانوں کی رہائی کے لئے حتی الامکان کوشش جاری ہے اور اب یہ امیدابھی بن رہی ہے کہ جلد ان نوجوانوں کی رہائی ہو سکتی ہے۔ اس ماحول میں کسی طرح کے بند کا اہتمام کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں تھا۔کچھ اداروں اور تنظیموں کے احباب ایک جگہ جمع ہو کر مثبت اور منفی پہلؤوں کا جائزہ لئے بغیرفیصلہ لے لیں تو اس سے نقصان پوری امت کا ہو گا۔ خاص طور پر موجودہ ماحول میں جہاں حکومت کی طرف سے کسی بھی مرحلہ میں تعاون نہیں مل رہا ہے عجلت میں لئے گئے جذباتی فیصلے غیر معمولی نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک طرف ملک کے لاکھوں کسان راجدھانی کی سرحدو ں پر مہینوں سے شدید سردی کی پرواہ کئے بغیر زرعی قوانین واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں حکومت اس پر بھی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ ان حالات میں کسی طرح کے بند کا اہتمام در اصل حالات بگاڑنے کے لئے شرپسندو ں کو موقع فراہم کرنے کے مترادف ہو گا۔بہتر ہے کہ بند کو ملتوی کرنے کے فیصلہ پر ہر کوئی قائم رہیں اور آنے والے دنوں میں ناانصافیوں کی صورت میں تمام مشوروں کے ساتھ فیصلے لئے جائیں۔ موجودہ حالات میں اس ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانو ں کو اپنے مسائل پر فیصلہ جوش و جذبات سے نہیں بلکہ ہوش و مصلحت سے لینے چاہئے۔ احتجاج کا طریقہ اپنانے سے پہلے اس امکان کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح مسئلہ کو مفاہمت کے ذریعہ سلجھایا جا سکے گا۔ یہ واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح حکومت نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی، کس طرح شاہین باغ کو بدنام کیا گیا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں تک ہو سکے دانشمندی، مفاہمت اوردوراندیشی کا مظاہرہ کیا