موجودہ حالات میں لوک سبھا کیلئے مسلم امیدواروں کا منتخب ہونا آسان نہیں راجیہ سبھاکیلئے مناسب تعدادمیں مسلمانوں کو نامزد کرنے دباؤ ڈالا جائے:رحمن خان
بنگلورو،16؍مارچ (ایس او نیوز) ملک بھر میں فرقہ پرستوں کی صف بندی کی وجہ سے لوک سبھا کے لئے اقلیتوں بالخصوص مسلم نمائندوں کا منتخب ہونا آسان نہیں ہے ۔ ملک میں اکثریتی طبقات کے ووٹوں کی صف بندی اور مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ سے مسلم امیدواروں کے حق میں سکیولر ووٹرس بھی بمشکل ووٹ دیں گے ۔ کسی بھی پارلیمانی حلقہ میں صرف مسلم ووٹ حاصل کرکے کسی مسلم امیدوار کا لوک سبھا کے لئے منتخب ہونا ممکن نہیں ہے ۔سابق مرکزی وزیر وسینئر کانگریس قائد ڈاکٹر کے رحمن خان نے آج لوک سبھا انتخابات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہارکیا ۔ یہاں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رحمن خان نے کہاکہ ریاست کرناٹک میں پارلیمانی حلقوں کی ازسرنو حد بندی کے بعد ایسا کوئی حلقہ نہیں ہے جہاں سے کوئی مسلم امیدوار خالص مسلم ووٹوں کے سہارے منتخب ہوجائے۔اس لئے تمام مسلم قائدین کو کانگریس پر یہ دباؤ ڈالنا چاہئے کہ اس کی تلافی کیلئے زیادہ مسلم نمائندوں کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کرکے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے ۔مجوزہ لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کے رول سے متعلق انہوں نے کہاکہ ووٹوں کی صف بندی ہوتی ہے ۔2014کا عام چناؤ بھی اسی بنیاد پر لڑا گیا ۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ان حالات میں سکیولر پارٹیاں بھی فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف متحد ہونے میں ناکام رہیں۔ حالانکہ علاقائی پارٹیوں نے اترپردیش ، بہار اور مغربی بنگال میں گٹھ جوڑ کرلیا ہے ۔ ان ریاستوں میں مسلمان ان پارٹیوں کو آزماچکے ہیں لیکن ان کے ساتھ جانے کے علاوہ مسلمانوں کے پاس دوسرا متبادل نہیں ہے ۔
سکیولر پارٹیوں کا گٹھ جوڑ: رحمن خان نے بتایا کہ ملک کے موجودہ حالات میں اگر ملکی سطح پر سکیولر پارٹیوں کا گٹھ جوڑ ہوجاتا تو بہتر تھا جن ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کا گٹھ جوڑ نہیں ہے وہاں بھی سکیولر ووٹوں کے بٹ جانے کا خدشہ ہے اس سے بی جے پی ہی کا فائدہ ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں تمام انصاف پسند اور سکیولر قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ مودی کو شکست دینا ملک کی ضرورت ہے ۔لیکن یہ ایک پلاٹ فارم پر آنے میں ناکام ہیں ۔یہ سب قائدین ان کا شکار ہیں ۔ یہ بہت ہی افسوسناک ہے ۔جس کی وجہ سے اس مرتبہ بھی یوپی ،بہار، اور مغربی بنگال میں بی جے پی کو فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ یہ بھی خبریں ملی ہیں کہ اس مرتبہ ایم آئی ایم اور ایس ڈی پی آئی جیسی مسلم نواز پارٹیاں بھی اپنے امیدوار میدان میں ا تار رہی ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ پارٹیاں ایسے حلقوں میں اپنے امیدوار کو میدان میں اتاریں گی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ ایسے حلقوں میں بھی ووٹوں کی صف بندی ہوگی اور بی جے پی کا فائدہ ہوگا۔دونوں پارٹیوں پر دباؤ: رحمن خان نے مزید کہاکہ مسلم اکثریت والی ریاستیں یو پی اور بہار میں انتخابات کا عمل شروع ہونے سے بہت پہلے مسلم قائدین کو متحد ہو کر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کوکانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے مجبور کرنا چاہئے تھا۔مگر افسوس کہ عدم سیاسی شعور کی وجہ سے ان ریاستوں کے مسلمان ایساکرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے مسلم اکثریت والی ریاستوں میں اس مرتبہ بھی مسلم ووٹوں کے بٹ جانے کا اندیشہ ہے ۔
کرناٹک میں تین سیٹوں کامطالبہ: انہوں نے بتایا کہ ریاست میں کانگریس مسلم قائدین نے مسلمانوں کے لئے تین حلقوں بنگلور سنٹرل، بیدر اور ہاویری کا مطالبہ کیاتھا۔ اس سلسلہ میں جب کانگریس کے ریاستی قائدین کے ساتھ ہماری بیٹھک ہوئی تو انہوں نے واضح کہا کہ بنگلور سنٹرل کے لئے مسلم امیدوار ہیں جو حلقہ میں قابل قبول بھی ہیں ۔ بیدر حلقہ سے ایسا نام پیش کیا جائے جو حلقہ کے لوگوں کے لئے قابل قبول ہو اور جیتنے کی بھی قابلیت رکھتا ہو ۔ اس بیٹھک میں سدارامیا نے کہا تھا کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے کانگریس کے حق میں صد فیصد ووٹ دئے ہیں ۔ کیا مسلمانوں کے لئے برائے نام زیادہ تعداد میں ٹکٹیں دیناکافی ہے ؟ وہ کامیاب ہوں یانہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ کانگریس سے دو مسلم امیدواروں کوٹکٹ دئے جانے کی امید ہے ۔ بنگلور سٹرل ، ہاویری یا دھارواڑ ۔مسلمانوں میں قیادت کے فقدان پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کتنااچھا ہوتا کہ بیدر حلقہ میں پچھلے سال یا دو سال پہلے ہی ایک مسلمان کو قائد کی حیثیت سے ابھارا جاتا اور تمام مسلمان متحد ہو کر اس کے لئے ٹکٹ کامطالبہ کرتے اور اسی کو کامیاب بنانے کا عہد کرتے۔ یادرہے کہ مسلمانوں کو جن حلقوں کی پیشکش کی جارہی ہے وہاں بھی دیگر طبقات کے ووٹ حاصل کئے بغیر مسلم امیدواروں کی جیت ممکن نہیں۔ انہوں نے کہاکہ بنگلور سنٹرل حلقہ میں کل ووٹروں کی تعداد تقریباً 19لاکھ ہے ۔ جن میں تقریباً 4لاکھ مسلم ووٹرس شامل ہیں ۔کیا اس حلقہ میں صرف مسلم ووٹروں کی تائید سے کوئی مسلم امیدوار کامیاب ہوسکتا ہے ؟اس پر مسلم قیادت کو سنجیدہ غور کرنا چاہئے اور مسلمانوں کے پولنگ فیصد کو بڑھانے کی عملی کوشش ہونی چاہئے ورنہ گزشتہ دومیعاد کی طرح لوک سبھا میں مسلم نمائندگی ہونامشکوک نظر آتا ہے ۔