مودی جی کا پرگیہ سنگھ ٹھاکور سے لاتعلقی ظاہر کرنا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان کا دہشت گردی سے ۔۔۔۔ دکن ہیرالڈ میں شائع ایک فکر انگیز مضمون
کرناٹکا کے معروف انگریزی اخبار دکن ہیرلڈ نے اپنی آن لائن نیوز پورٹل پر ایس رگھو تم کا ایک فکر انگیز مضمون شائع کیا ہے، جس کا اردو ترجمہ قارئین ساحل آن لائن کے لئے ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ نے پیش کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندرا مودی کا کہنا ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت قرار دیتے ہوئے ”باپو کی بے عزتی“ کرنے کے معاملے پر پرگیہ ٹھاکورکو”کبھی بھی معاف نہیں کرسکیں گے۔“امیت شاہ کہتے ہیں کہ پرگیہ ٹھاکور نے جو کچھ کہا ہے(اور یونین اسکلس منسٹر اننت کمار ہیگڈے اور پارٹی کے دوسرے جانے پہچانے جنوبی کینرا کے لیڈر نلین کمار کٹیل نے خوش دلی سے جس کی حمایت کی ہے۔ ہیگڈے نے بعد میں یہ دعویٰ کیا کہ ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ ہیاک ہوگیا تھا) بی جے پی اس میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اور پرگیہ، نلین اور ہیگڈے سے اپنے بیانات کی وضاحت کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔
یہ ڈرامہ بند کیا جائے: مودی جی!، امیت شاہ جی!اب اس میں وضاحت کرنے والی کونسی بات رہ گئی ہے۔ او روہ بھی ایسی کہ جس کے لئے دس دن کی مہلت ضروری ہو؟!آخر کو یہ وہی زہر تو ہے جو بہت سارے دائیں بازو کی سوچ والے ہندو ذہن سازوں کے دماغ میں بھر دیاگیاتھا کہ... گاندھی ایک مسلم نواز تھے اور وہ ایک ہندو دشمن تھے۔اور گوڈسے ایک دیش بھکت تھا اورہندوؤں کے مفاد کے لئے گاندھی کو قتل کرنے میں وہ حق بجانب تھا۔ یہ کام مختلف زاویوں سے کیا جارہا تھا ہے۔جب دائیں بازو کی ہندوسوچ رکھنے والے قائدین یہ دیکھتے ہیں کہ اس ذہنیت کو قبول کرنے کے لئے مٹی نرم ہے تو براہ راست ان کے اندر یہ زہر بھر دیتے ہیں۔اورجو ذہن اس زہریلی سوچ کو یکبارگی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے توکبھی ڈھکے چھپے اور غیر محسوس انداز میں ان کے اندر شکوک شبہات پیدا کرکے چھوڑ دیتے ہیں۔
ٹکڑے ٹکڑے گینگ: اور گاندھی کے سلسلے میں زہر افشانی آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھاکی حقائق کے برخلاف تاریخ اوراس کے پورے سازشی خاکہ کا ایک حصہ ہے، جس کی تشہیر وہ آزادی کے بعد سے کرتے آرہے ہیں۔آر ایس ایس جوکہ جنگ آزادی میں حصہ لینے سے دور رہی،اور اس کے بجائے انگریزوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا موقف اپناتے ہوئے اپنا پورا زور مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر صرف کرتی رہی۔اور ہندو مہاسبھا نے بنگال، سندھ اور نارتھ ویسٹ فرنٹیئر پراونس میں کانگریس کو کنارے لگانے کے لئے مسلم لیگ کے ساتھ ہاتھ ملایاتھا۔ اور یہ اصلی’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ تھی جس نے’تقسیم ملک‘ کی سوچ وضع کی تھی اور جناح کی زبان سے’تقسیم‘کا لفظ نکلنے سے پہلے ہی اسے ناگزیر بناکر رکھ دیا تھا۔ ہندوتوا کی فکر اور سوچ سے مسموم ذہنوں والے گروہ آج سوشیل میڈیا پر ایک طرف گوڈسے اور پرگیہ ٹھاکورکی ستائش اور تعریف کے پُل باندھنے میں لگے ہیں تو دوسری طرف انتہائی گندی زبان میں گاندھی اور نہرو کی تذلیل کرنے میں مصروف ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پورے ملک کو کس طرح زہر آلود کردیا گیا ہے۔
کیا آپ کو پتہ نہیں ہے!: کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ عورت کون ہے جسے آپ نے ’بھارت ماتا‘ کی پارلیمنٹ کا رکن بنانے کے لئے اپنا امیدوار منتخب کیا ہے؟شاید آپ نے اسے اس لئے منتخب کیا ہے کہ دائیں بازو کی قیادت بالکل اندرونی حلقے میں اسی سوچ کی حامل ہے۔ حالانکہ اسے پرگیہ جیسی گندی سوچ کو زبان دینے والی شخصیت کی ضرورت ہے، لیکن اس کالازمی نتیجہ یہ ہونے والا ہے کہ بھارت ماتا کی سیاست کا جسم دہشت گردی کی زیرسماعت ملزم پرگیہ کے رکن پارلیمان بن جانے کی وجہ سے زہر آلود ہوجائے گا۔تب یہ ہوسکتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کا خاکہ تیار کرنے کے لئے سناتن سنستھا کی خفیہ میٹنکس بھی منعقد ہونے لگیں۔اور ایسا ہونے پر ذہن سازی کیے گئے گروہوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہے گا۔ اور آپ ایک ’نئے ہندوستان‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں!
ایک بزدلانہ حکمت عملی: لیکن یہاں پر کئی مرتبہ بزدلانہ حکمت عملی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔اور اس میں کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔اس کے تار تو ’ہندوؤں کو بچانے‘ کے لئے گاندھی کو قتل کرنے پر آمادہ کیے گئے ناتھو رام گوڈسے سے ہی جاملتے ہیں۔آر ایس ایس نے فوری طور پر گوڈسے سے یہ کہتے ہوئے لاتعلقی ظاہر کی تھی کہ اس نے اپنے وقت کا ’ہندوہردَیے سمراٹ‘ بننے کے لئے دنیابھر میں انگریزوں کے اقتدارکا خاتمہ کرنے والے اور بھارت ماتا کے بیٹوں اور بیٹیوں کے بے نظیر لیڈر 79برس کے ضعیف گاندھی کے قتل کی سازش پر عمل درآمد کرنے سے قبل ہی آر ایس ایس سے علاحدگی اختیار کی تھی۔
یہ زہر ہمیشہ کام کرتا رہا ہے: یہ زہر افشانی ہمیشہ کام کرتی رہی ہے اور اس کے نتیجے میں گاندھی کا قتل ہوا ہے۔ بابری مسجد(عدالت کو اس کے تحفظ کی حلفیہ یقین دہانی کے باوجود) ڈھا دی گئی ہے۔ فسادات برپا کیے جاتے رہے ہیں۔مسموم ذہن کے گروہ عصمت دری اور قتل و غارت گری جیسے انتہائی گھناونے جرائم انجام دیتے رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بن کر چپ چاپ دیکھتی رہی ہے۔’گائے کے تحفظ‘کے نام پر جنونی ہجوم کے ذریعے قتل کیے گئے ہیں۔ ’لو جہاد‘کے نام پر جان لیو احملے ہوئے ہیں۔اور ان سب کے بعد یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ (سنگھ) پریوار ایسی حرکات کو قبول نہیں کرتا۔اور پھر اس کی مذمت کا ڈرامہ کیا جاتا ہے۔جیسے ”گوڈسے پریوار کا حصہ نہیں تھا جب اس نے گاندھی کوقتل کیاتھا۔“”آہ! مجھے بہت دکھ ہواتھا اور میں روپڑا تھا جب بابری مسجد ڈھا دی گئی تھی۔“اور ایسے ہی کچھ کہانیاں گھڑ لی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ ’چند گنے چنے لوگ‘ کاایک حیلہ بھی تراش لیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ہندوتوا گروہوں میں موجود چند گنے چنے لوگ اس طرح کے شدت پسندانہ حملے کرتے ہیں ورنہ اعلیٰ اور معزز قیادت کا اس سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔
یہ پاکستانی طریقہ کار ہے: ذرا سوچئے کہ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کا ایساطریقہ کون اپناتاہےَ پاکستان، اس کی ملٹری اور(خفیہ ایجنسی) آئی ایس آئی۔یہ بالکل ویسا ہی ہے جو پاکستان ہمارے ساتھ کررہا ہے۔ پہلے 1947-48میں کشمیر کے اندر، اور اب گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے اور انہیں ہمارے ملک میں بھیج کر قتل عام کروانے میں ملوث ہے۔ اور جب پکڑے جائیں تو یہ کہنا کہ ”نہیں۔ دہشت گردوں سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ ریاست سے تعلق نہیں رکھتے۔وہ ’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘ہیں۔ ہم تو صر ف اخلاقی حمایت فراہم کرتے ہیں۔“ حالانکہ وہ بھی ذہنوں کو مسموم کرنے اور انہیں اپنی زمین سے سازشوں پر عمل کرنے کے لئے مواقع فراہم کرتا ہے۔اور اس کے باوجود ’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘ کی آڑ میں زیتون کی شاخ تھام کر ذمہ داریوں سے بچ نکلتا ہے۔لیکن ہم پاکستان پر ہی الزام کیوں لگائیں، جب کہ ہمارے پاس گوڈسے اور پرگیہ سنگھ ٹھاکور جیسے ’نان سنگھ ایکٹرز‘ موجود ہیں؟
سردار پٹیل نے خوب کہاتھا: شاید سردار ولبھ بھائی پٹیل نے (سنگھ)پریوار کی معصومیت والی تھیوری کو بہت بہتر انداز میں سمجھاتھا۔ جب آر ایس ایس پر لگی ہوئی پابندی ہٹانے کے لئے شیاما پرساد مکھرجی نے مداخلت کرنی چاہی تو سردا رپٹیل نے18 جولائی 1948 کو جواب میں لکھاتھا: ”ان دو تنظیموں (آر ایس ایس اور ہندومہاسبھا) خاص کرکے پہلی تنظیم(آر ایس ایس) کی سرگرمیوں کی وجہ سے ملک میں ایسا ماحول پیدا ہوگیا جس میں اس قسم کا المیہ (گاندھی کا قتل) ممکن ہوگیا۔ میرے دل ودماغ میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس سازش میں ہندو مہاسبھا کاانتہاپسند طبقہ ملوث ہے۔آر ایس ایس کی سرگرمیاں حکومت اور ملک کے وجود کے لئے خطرہ بن گئی ہیں۔ہماری رپورٹس بتاتی ہیں کہ پابندی کے باوجود یہ سرگرمیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔“
گولوالکر کو پٹیل کا جواب: جب آر ایس ایس کے چیف ایم ایس گولوالکر نے یہ کہتے ہوئے پابندی ہٹانے کی مانگ کی کہ آر ایس ایس گاندھی کے قتل کے لئے ذمہ دار نہیں ہے تو ستمبر 1948میں پٹیل نے جواب میں لکھاکہ:”ہندوؤں کو متحد کرنا اور ان کی مدد کرنا ایک چیز ہے اوربے قصوراور بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں سے بدلہ لینے کے لئے آمادہ کرنادوسری بات ہے۔..... ان کی تمام تقاریر فرقہ وارانہ زہر سے بھری ہوئی تھیں۔ہندوؤں کو متحد کرنے اوراپنے تحفظ کا جذبہ بیدار کرنے کے لئے زہر پھیلانا ضروری نہیں تھا۔اس زہر کے لازمی نتیجے کے طورپر ملک کو گاندھی جی جیسی شخصیت کی بیش قیمتی زندگی کی قربانی دینی پڑی۔آر ایس ایس کے لئے حکومت یا عوام کے دل میں ایک رتی برابر بھی ہمدردی باقی نہیں رہی ہے۔درحقیقت اس کی مخالفت بڑھ گئی ہے۔مخالفت اس وقت اور شدید ہوگئی جب آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی کی موت کے بعد مٹھائیاں تقسیم کیں۔..... اس کے بعد چھ مہینے کا عرصہ گزر گیا ہے۔ ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ تمام تر سوچ بچار کے بعد آر ایس ایس کے لوگ راہ راست پر آجائیں گے۔ مگر مجھے جو رپورٹس مل رہی ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی سابقہ سرگرمیوں میں نئی روح پھونکنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔“
سردار نے اقرار نامہ لیا: اس کے بعد بھی سردار (گاندھی ہی کی طرح) مانتے تھے کہ آر ایس ایس میں نچلی سطح کے لاکھوں اراکین ایسے ہیں جو سادگی پسند ہیں۔ حقیقی معنوں میں محب وطن ہیں۔لیکن ان کے لیڈروں کی طرف سے ان کے ذہنوں کو زہر آلود کیا جارہا ہے۔انہوں نے سوچا کہ یہ محب وطن کارکنان کی فوج کانگریس کی سوچ اور قیادت میں سوشلسٹ نہرو کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔انہوں نے آر ایس ایس کو کانگریس میں ضم کرنے کی کوشش کی۔ جب یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی تو انہوں نے گولوالکر کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تنظیم کے لئے ایک دستور بنائیں۔ اور جس طرح انگریزوں نے آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار سے اقرار نامہ لیا تھا، ایسا ہی ایک قرار نامہ سردارنے گولوالکر سے لیاکہ وہ صرف ثقافتی تنظیم رہے گی اورملک کی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرے گی۔اور وہ ملک کے دستور اور قومی پرچم کا احترام کرے گی۔ جی ہاں! ان دو چیزوں (دستور اور پرچم) کے لئے احترام کو آر ایس ایس کے ان نام نہاد ’راشٹرا ودیوں‘ سے زبردستی منوایا گیا تھا۔
انگریزوں کے سامنے بھیگی بلّی: بے شک یہ الگ بات ہے کہ انگریزی حکومت کے سامنے آر ایس ایس والے بھیگی بلّی کی طرح اپنی دُم کو ٹانگوں کے درمیان سختی کے ساتھ دبائے رکھا۔لیکن جب سردار پٹیل فوت ہوگئے تو انہوں سے بالکل اس کے برخلاف رویہ اپنایا۔تب سے آج تک ’کلچرل پریوار‘ اُکساتا ہے اور ’پولیٹکل پریوار‘ فائدہ اٹھاتا ہے۔
ایک بڑی ٹریجڈی ہو سکتی ہے: آج بھی گزشتہ پانچ برسوں میں ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں جس میں ’گاندھی کے قتل‘ سے بھی بڑا المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ یعنی ہماری آزادجمہویت کا خاتمہ۔ مودی کی حکومت میں ’گنے چنے عناصر، اور ’نان سنگھ ایکٹرز‘ نے دہشت کی آندھی پھیلا رکھی ہے۔ بھیما۔کورے گاؤں سے گؤ کے نام پر لنچنگ اور اتر پردیش کے ’اینکاؤنٹرراج‘ تک۔ اور اب اس دہشت کے زیر سماعت ملزم کو وہ لوگ پارلیمنٹ تک بھیجنا چاہتے ہیں۔ انہیں روکنے کے لئے کوئی سردار یا نہرو نہیں ہے۔ لیکن کیا ووٹرس ان سب معاملات کو سمجھنے کے قابل ہوگئے ہیں؟ یا پھر یہ کالے کرتوت کام کرجائیں گے؟...یہ بات جلد ہی معلوم ہوجائے گی۔