ملک میں وقف ترمیمی بل لائے جانے کو لے کر گلبرگہ رکن اسمبلی کنیز فاطمہ نے کی سخت مخالفت
گلبرگہ 7/اگست (شاکر ایم اے حکیم/ایس او نیوز) : گلبرگہ رکن اسمبلی محترمہ کنیز فاطمہ نے مرکزی حکومت کی جانب سے وقف ترمیمی بل پیش کئے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ کے اختیارات اس بل کے سبب متاثر ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اگر کسی اوقافی جائیداد کے بارے میں کوئی تنازعہ یا اختلاف ہے تو عدلیہ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کی جانب سے وقف ترمیمی بل منظو ر کرلیا جاتا ہے تو پھر ایسے تنازعات کافیصلہ وقف بورڈ یا عدالت کے بجائے سرکاری عہدہ داران کریں گے۔
ملک بھر کی ریاستوں میں اوقافی جائیدادیں موجود ہیں۔ اگر ان جائیدادوں میں سے کچھ جائدادوں یا پھر زیادہ جائیدادوں کو متنازعہ قرار دیا جاتا ہے تو پھر یہ جائیدادیں جو برسوں سے مسلم طبقات کے قبضہ میں ہیں ان پر سرکار کا یا کسی اور کا تسلط ہوجائیگا اور مسلمان ان جائیدادوں سے استفادہ کرنے سے محروم ہوجائینگے۔
محترمہ کنیز فاطمہ نے کہا کہ دستور ہند ملک میں سیکولر ازم کے قیام کی تعلیم دیتا ہے اور ہمیں دستور ہند کا احترام کرتے ہوئے قوانین میں ایسی تبدیلیاں نہیں کرنی چاہئے یا ایسے نئے قوانین نہیں بنائے جانے چاہئے جن سے اقلیتی طبقات کو نقصان پہنچتا ہو۔ ملک بھر میں اگر کہیں اوقافی جائیدادوں کے بارے میں تنازعات کھڑے ہوتے ہیں تو پھر اس صورت میں متعلقہ وقف بورڈ ان تنازعات کی یکسوئی کرواتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ ملک کی آزادی سے لیکر آج تک چلا آرہاہے۔
انھوں نے کہا کہ بعض اوقافی جائیدادوں پر غیر سماجی افراد قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر بعض غیر مسلم عناصر دعوی کرتے ہیں کہ ان مقامات پر مندر تھے۔ اس طرح کے تمام تنازعات کا حل دستاویزات کے ثبوت ، تاریخی شواہد اورعدالتوں کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اوقافی جائیدادوں کے کسی بھی تنازعات کو حل کرنے کیلئے عدلیہ موجود ہے، وقف بورڈ موجود ہیں پھر اوقافی جائیدادوں سے متعلق ترمیمی بل لانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ محترمہ کنیز فاطمہ نے کانگریسی قائدین، کانگریسی ارکان پارلیمینٹ اور ملک کے تمام انصاف پسند طبقات پر زور دیا ہے کہ وہ مذکورہ بالا وقف ترمیمی بل منظور کئے جانے کے خلاف آواز بلند کریں۔