بھٹکل : ماہی گیرکشتی’سوورنا تریبھوجا‘ کا ملبہ برآمد ہونے کے بعد لاپتہ ماہی گیروں کے اہل خانہ کی تشویش میں ہوگیا اضافہ
بھٹکل 4/مئی (ایس او نیوز) ہندوستانی بحریہ کی طرف سے گم شدہ ماہی گیر کشتی ’سورنا تریبھوجا‘ کا ملبہ برآمد کیے جانے کی خبر عام ہونے کے ساتھ ہی اس کشتی پر مچھلیوں کے شکار کے لئے گئے ہوئے لاپتہ ساتوں ماہی گیروں کے اہل خانہ سخت تشویش میں مبتلاہوگئے ہیں، کیونکہ بحریہ کے ذمہ داران کی طرف سے اس ضمن میں کوئی بھی بات سننے کو نہیں ملی ہے۔
ضلع شمالی کینرا کے مادن گیری ، کمٹہ سے تعلق رکھنے والے لاپتہ ماہی گیر ستیش کے والد ایشور ہری کنترا نے تشویش اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے پتہ نہیں کہ میرے بیٹے کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے۔ ہم لوگ بہت ہی غریب ہیں۔ ہمارے پاس صحیح صورتحال جاننے کے وسائل نہیں ہیں۔جو کچھ بھی نیوی والے کہہ رہے ہیں، اس پر یقین کرنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے۔“
ستیش کے گھر والے ابھی بھی اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ وہ کشتی کے ساتھ غرقاب ہوگیا ہوگا۔ ان کو امید ہے کہ جلد ہی ستیش زندہ اور سلامت گھر واپس لوٹے گا۔
بحری جنگی جہاز آئی این ایس نیرکھشک جو لاپتہ ماہی گیر کشتی کی تلاشی مہم میں مصروف تھا اس پر اڈپی کے ایم ایل اے رگھوپتی بھٹ اور کچھ ماہی گیر اس وقت موجود تھے جب سوورنا تریبھوجا کا ملبہ مہاراشٹرا کے مالوان سمندر میں تلاش کرلیا گیا اور اس کی شناخت بھی کرلی گئی۔ مگر لاپتہ ماہی گیروں کے اہل خانہ اس بات پر تعجب کررہے ہیں کہ سرکاری طور پر نیوی، پولیس یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انہیں اس تعلق سے کوئی بھی خبر نہیں دی گئی ہے۔ ملبہ برآمد ہونے کی خبر میڈیا کے ذریعے ہی ان لوگوں تک پہنچی ہے۔
حالانکہ گم شدگی کے تقریباً چار مہینے بعد سوورنا تریبھوجا کا ملبہ گہرے سمندر میں برآمد ہونے کی بات سامنے آئی ہے، لیکن کشتی اور ا س پر موجود ماہی گیروں کے ساتھ اصل میں کیا حادثہ پیش آیاتھا اس بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جارہی ہے۔ماہی گیر کشتی کی پراسرار گمشدگی کے تعلق سے جو کہانیاں عام ہوئی تھیں اس میں بحری جنگی ’آئی این ایس کوچی‘کے ساتھ تصادم کا معاملہ بھی تھااور آئی این ایس کوچی کے نچلے حصے کو اسی رات اور اسی مقام پر نقصان پہنچنے کی بات معلوم ہوئی تھی، جب سوورنا تریبھوجا سے رابطہ ٹوٹ گیا تھااور اس کے گم ہوجانے کی بات سامنے آئی تھی۔مگر نیوی کی طرف سے نہ اس بات کی پوری طرح تصدیق کی گئی اور نہ ہی انکار کیا گیا ہے۔
اس تعلق سے لاپتہ ماہی گیر ستیش کے والد ایشور ہری کنترا کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ تین دہائیوں سے سمندر میں ماہی گیری کی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ”اگر نیوی کے جہاز کی کسی چیز سے ٹکر ہوگئی ہے تو اسے متعلقہ سویلین ڈپارٹمنٹ کو اس کی اطلاع دینی چاہیے۔اور پھر انہیں غرقاب کشتی کا ملبہ ڈھونڈ نکالنے کے لئے چار مہینے کا عرصہ بھی نہیں لگ سکتا۔“ ایشور کا خیال ہے کہ ”ماہی گیر کشتی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا ہوا ہے۔اور کوئی تو ایسی بات ہے جسے بشمول انڈین نیوی اور پولیس کے تمام تحقیقاتی ایجنسیاں چھپارہی ہیں۔اورملبے کے معمولی ٹکڑے دکھاکر سچائی پر پردہ ڈالتے ہوئے اب اس معاملے کو بندکرنا چاہتی ہیں۔“
تلاشی مہم پر لگے ہوئے بحری جہاز پر جو ماہی گیر موجود تھا اس کا کہنا ہے کہ”ملبے کا ایک چھوٹاسا ٹکڑا سمندر میں دکھائی دیا ہے۔ پوری کشتی کا ملبہ بر آمد نہیں ہوا ہے۔ اس ماہی گیر کے مطابق ماہی گیر تیرنے میں ہمیشہ ماہر ہوتے ہیں۔جب کوئی بھی کشتی غرقاب ہونے لگتی ہے تو اس میں کچھ وقت لگتا ہے جس کے دوران اس پر موجود افراد تیر کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرلیتے ہیں۔یا پھر کسی چیز سے ٹکراتے ہی وہ وائرلیس کال کے ذریعے بندرگاہ سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔مگر اس معاملے میں ایسی کوئی بھی بات نہیں ہوئی ہے۔“
بہرحال ابھی اس کہانی پر پڑے ہوئے راز کے پردے ہٹنے باقی ہیں، تب تک لاپتہ ماہی گیروں کے اہل خانہ تشویش، امید اور یاس کے جذبات کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔